کیا تقریر، وعظ یا تبلیغ کا معاوضہ لینا جائز ہے؟


سوال نمبر:4245
کیا تقریر، وعظ یا تبلیغ کا معاوضہ لینا جائز ہے؟

  • سائل: محمد میزان الرحمٰنمقام: ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 20 مئی 2017ء

زمرہ: دعوت و تبلیغ

جواب:

دعوت و ارشاد اور تقریر و تبلیغ پیغمبرانہ ذمہ داری ہے۔ خدا تعالیٰ کے پیغمبر علیھم السلام اپنی قوم کو وعظ و تبلیغ کرتے تو فرماتے:

فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ.

سو اگر تم نے (میری نصیحت سے) منہ پھیر لیا ہے تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔

يُوْنـُس، 10: 72

سورہ یاسین میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی گفتگو کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ. اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ.

اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا: اے میری قوم! تم پیغمبروں کی پیروی کرو۔ ایسے لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔

يٰس، 36: 20-21

گویا پیغمبرانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے عوض لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ اور بدلہ نہ مانگا جائے اور تقریری و تبلیغ کے لیے لوگوں سے کسی قسم کے بدلے یا فائدے کا سوال نہ کیا جائے۔ بلکہ یہ ذمہ داری خدا کے پیغمبروں‌ کی طرح محض خدا کی رضا، جذبہ اصلاح‌ اور خدمتِ دین سمجھ کر ادا کی جائے اور اس کا اجر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔

علماء، خطباء، مقررین، مدرسین، آئمہ اور مؤذن جو عوض، اجرت یا معاوضہ لیتے ہیں وہ (معاذاللہ) دین کی خرید و فروخت نہیں ہے، بلکہ پابندئ وقت کا ’حق الخدمت‘ ہے۔ یہ تمام خدمات بلاشبہ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہئیں، لیکن سلسلہ خدمات کو جاری رکھنے کے لیے بوقتِ ضرورت مناسب وظیفہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ دورِ حاضر میں یہ ایک ضرورت بھی ہے، اگر درمیان سے اسے اٹھا دیا جائے تو دینی فرائض کی ترویج اور نشر و اشاعت کا سلسلہ رک جائے گا، کیونکہ ہر شخص تقویٰ اور خشیت الٰہی کے پیغمبرانہ معیار پر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص صاحبِ مال و صاحب استطاعت ہے تو اسے یہ خدمات فی سبیل اللہ ادا کرنی چاہئیں۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:

إنَّ الْمُتَقَدِّمِينَ مَنَعُوا أَخْذَ الْأُجْرَةِ عَلَى الطَّاعَاتِ، وَأَفْتَى الْمُتَأَخِّرُونَ بِجَوَازِهِ عَلَى التَّعْلِيمِ وَالْأَذَانِ وَالْإِمَامَةِ... كَانَ مَذْهَبُ الْمُتَأَخِّرِينَ هُوَ الْمُفْتَى بِهِ.

علماء متقدمین نے عبادات پر اجرت لینے سے منع کیا ہے، اور علماء متاخرین نے تعلیم اور اذان وامامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔۔۔ اور فتوی متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے۔

ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4 : 417، بيروت: دار الفكر

چونکہ مسلمانوں کی رفاہ کے لیے کام کرنے اور زکوٰۃ اور ٹیکس وصول کرنے والے شخص کو مالدار ہونے کے باوجود ان اموال سے استفادہ کرنا جائز ہے، اس لیے مقررین، مبلغین اور داعی کے حضرات بقدرضرورت تنخواہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن دینی خدمت سرانجام دینے والوں کے ہاں اصل استغناء، لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے گریز کرنا اور ان سے کسی بھی قسم کی امید وابستہ کرنے سے احتراز کرنا بہتر ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری