جواب:
قرآن و حدیث میں کہیں بھی حالت احرام میں غسل کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ لہٰذا غسل فرض ہوئے بغیر بھی مُحرِم (جو احرام میں ہو) غسل کر سکتا ہے۔ جبکہ فرض ہونے کی صورت میں تو بدرجۂ اولیٰ غسل کرنا ہوگا۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:
إِنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ الْعَبَّاسِ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ فَقَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَبَّاسٍ يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَهْسَهُ وَقَالَ الْمِسْوَرُ لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ فَأَرْسَلَنِي عَبْدُ اﷲِ بْنُ الْعَبَّاسِ إِلَی أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يُسْتَرُ بِثَوْبٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقُلْتُ أَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ حُنَيْنٍ أَرْسَلَنِي إِلَيْکَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ الْعَبَّاسِ أَسْأَلُکَ کَيْفَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَی الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّی بَدَا لِي رَأْسُهُ ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ اصْبُبْ فَصَبَّ عَلَی رَأْسِهِ ثُمَّ حَرَّکَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ وَقَالَ هَکَذَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ.
حضرت عبد اﷲ بن عباس اور حضرت مِسوَر بن مخزمہ کا ابواء کے مقام پر احرام والے کے سر دھونے کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس نے کہا کہ احرام والا سر دھو سکتا ہے اور حضرت مسور نے کہا کہ احرام والا سر نہیں دھو سکتا۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاریg کے پاس بھیجا تو میں نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے ہوئے پایا اور ایک کپڑے سے پردے کیا ہوا تھا۔ میں نے سلام عرض کیا تو فرمایا: کون ہے؟ میں نے کہا کہ عبد اﷲ بن حُنَیں ہوں۔ مجھے حضرت عبد اﷲ بن عباس نے آپ سے یہ پوچھنے کے لیے بھیجا ہے کہ رسول اللہa حالت احرام میں اپنے سر کو کس طرح دھویا کرتے تھے، پس حضرت ابو ایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے نیچا کر دیا، یہاں تک کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا۔ پھر ایک آدمی سے اپنے اوپر پانی ڈالنے کے لیے کہا تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر ہاتھوں سے سر کو حرکت دی اور انہیں آگے پیچھے لائے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہa کو اِسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔
حالت احرام میں (بصورت مسؤلہ)غسل فرض ہونے کی صورت میں غسل کرنا لازم ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔