کیا ورثاء باہمی رضامندی سے ترکہ برابر حصوں‌ میں‌ تقسیم کرسکتے ہیں؟


سوال نمبر:4184
اگر والد صاحب کی وفات کے بعد بہن اور بھائی آپس کی رضامندی سے (للذکر مثل حظ الانثیین) کے بجائے برابر برابر تقسیم کرنا چاہیں تو کیسا ہے؟ جواب باحوالہ عنایت فرمائیں۔

  • سائل: محمد راشدمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 03 اپریل 2017ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

شریعتِ مطاہرہ نے ترکہ میں ورثاء کے مقررہ حصے بیان کر دیے ہیں، کوئی انسان ان مقررہ حصوں میں اپنی مرضی سے کمی پیش نہیں کرسکتا۔ تاہم اگر کوئی وارث بلا جبر و اکراہ اپنے حصے سے دستبردار ہونا چاہے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تمام ورثاء باہم مشورے سے برضا و رغبت کسی بہن بھائی کو اس کے حصے سے زیادہ دینا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے۔ اگر ورثاء میں سے کوئی وارث زیادہ غریب ہے تو قریبی رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے کہ اس کے حصے سے زیادہ اسے دیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا.

اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔

النساء، 4: 8

اس لیے ورثاء کسی ضرورت مند کے لیے اپنے حصے سے مکمل یا جزوی طور پر دستبردار ہوسکتے ہیں۔ بصورت مسئلہ بھائی اپنی رضامندی اور خوشی سے اپنے حصے کم کر کے بہنوں کو دے سکتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری