کیا ہمسایہ شفعہ کا حق رکھتا ہے؟


سوال نمبر:4156
السلام علیکم مفتی صاحب! حقِ شفعہ کے متعلق میرے کچھ سوالات ہیں: پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہمسائے کو بتائے بغیر زمین فروخت کر دے تو شفعہ کب طلب کیا جائے گا؟ کیا اس طرح بیع جائز ہے؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر جان بوجھ کر ہمسایہ کو بےخبر رکھ کر زمین بیچ دی جائے تو جب مشفعہ کو پتہ چلے تو پھر مروجہ قانون کا حوالہ دے کر حق شفعہ باطل ہو سکتا ہے؟ تیسرا یہ ہے کہ حق شفعہ ملنے کے بعد قیمت کا تعین کس طرح ہو گا؟ اور چوتھا یہ کہ اگر زمین کے بدلے زمین خریدے تو کیا شفعہ ہو سکتا ہے؟

  • سائل: محمد امین شاہمقام: سوات
  • تاریخ اشاعت: 22 فروری 2017ء

زمرہ: حق شفعہ

جواب:

شریعت اسلامیہ کا قانون ہے کہ جب کوئی شخص زمین‘ مکان‘ دکان یا کوئی بھی غیرمنقولہ جائیداد بیچنا چاہے تو پڑوسی کو آگاہ کرے ۔ اگر وہ خریدنا چاہے تو مارکیٹ ریٹ پر اس کے ہاتھ فروخت کرے کیونکہ اخلاقاً اور قانوناً دوسروں کی نسبت وہ زیادہ حقدار ہے۔ اگر پڑوسی خریدنے کے لیے تیار نہ ہو تو جہاں چاہے بیچ سکتا ہے‘ شرعاً آزاد ہے۔

صورت مذکورہ میں زمین بیچنے والے نے آپ کو بتائے بغیر اپنی زمین کسی تیسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دی ہے تو آپ اپنا حق شفعہ استعمال کر کے بذریعہ پنچائت یا عدالت قانوناً یہ سودا منسوخ کروا کر خود اسی قیمت پر خرید سکتے ہیں جو مارکیٹ ریٹ سے بنتی ہے تاکہ کسی فریق پر زیادتی بھی نہ ہو اور حقدار کو اس کا حق بھی مل جائے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

قضی النبی صلی الله عليه وآله وسلم بالشفعة في کل ما لم يقسم. فاذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة.

(صحيح بخاري، بحواله مشکوة، 256)

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر غیر منقولہ غیر منقسم جائیداد میں حق شفعہ دیا۔ جب حد بندی ہو جائے اور راستے بدل جائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں۔

اسی روایت کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے کہ:

قضی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بالشفعة في کل شرکة لم تقسم ربعة او حائطا لا يحل له ان يبيع حتی يؤذن شريکه فان شآء اخذ و ان شاء ترک فاذا باع و لم يوذنه فهو احق به.

(الصحيح لمسلم، مشکوة، ص256)

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر شریک چیز میں حق شفعہ مقرر فرمایا جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ گھر ہو یا باغ کسی کو جائز نہیں کہ جب تک اپنے پڑوسی کو (جس کی حد اس جائیداد سے ملتی ہے) بتائے بغیر بیچ دے۔ پڑوسی چاہے تو لے، چاہے تو چھوڑ دے۔ جب مالک نے پڑوسی کو بتائے بغیر وہ (جائیداد) بیچ دی تو پڑوسی بہ نسبت کسی تیسرے شخص کے زیادہ حقدار ہے۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

الجار احق بسقبه.

پڑوسی اپنی قربت کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الجار احق بشفعته ينتظر لها وان کان غائبا.

(احمد‘ ترمذي‘ ابو داؤد‘ ابن ماجه‘ دارمي)

پڑوسی شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگر موجود نہیں تو اس کا انتظار کیا جائے گا۔

(یہ تمام روایات مشکوۃ شریف میں باب الشفعۃ صفحہ 257‘256 پر موجود ہیں۔)

جس شخص کو شفعہ کا حق حاصل ہے، اس کے لئے لازم ہے کہ جب اسے مکان یا جائیداد کے فروخت کیے جانے کی خبر پہنچے، فوراً بغیر کسی تأخیر کے یہ اعلان کرے کہ: ’فلاں مکان فروخت ہوا ہے اور مجھے اس پر حقِ شفعہ حاصل ہے، میں اس حق کو استعمال کروں گا‘ اور اپنے اس اعلان کے گواہ بھی بنائے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:

اذا علم الشفيع بالبيع ينبغي ان يطلب الشفعة علی الفور ساعتئذ.

(فتاوی عالمگيری‘ 5: 172)

جب شفعہ کرنے والے کو سودے کا پتہ چلے اسے فوراً اسی وقت شفعہ کا مطالبہ کر دینا چاہئے۔

اگر کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے وہ شفعہ کا اعلان یا مطالبہ نہیں کرسکا تو اس کا حقِ شفعہ ساقط نہیں ہوتا۔

ولو ترک الخصومة ان کا بعذر نحو مرض او حبس او غيره و لم يمکنه التوکيل لم تبطل شفعة.

(فتاویٰ عالمگيری‘ 5: 173)

اگر شفعہ کرنے والے نے کسی بیماری یا قید یا کسی اور عذر کی بنا پر جھگڑا نہیں اٹھایا نہ کسی کو وکیل بنانا ممکن تھا تو اس کا شفعہ باطل نہیں ہوگا۔

صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ:

لا تسقط الشفعة بتاخير هذا الطلب

(هدايه‘ 4: 394)

طلب شفعہ میں تاخیر ہو جائے تو حق شفعہ باطل نہیں ہو جاتا۔

یہی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام ابو یوسف کا مذہب ہے۔

اگر قیمت کے تعین میں دونوں کا اختلاف ہو جائے تو خریدار کی مانی جائے گی۔

اختلف الشفيع و المشتری في الثمن فالقول قول المشتری لا لان الشفيع يدعی استحقاق الدار عليه عند نقد الاقل وھو ينکر و القول قول المنکر مع يمينه و لا يتحالفان

(هدايه‘ 4: 397)

اگر شفعہ کرنے والا اور خریدنے والا قیمت میں اختلاف کریں تو بات خریدنے والے کی مانی جائے گی کیونکہ شفعہ کرنے والا مکان کا حقدار ہونے کا دعویدار ہے کم قیمت پر‘ اور خریدنے والا انکار کرتا ہے اور بات انکار کرنے والے کی مانی جاتی ہے قسم کے ساتھ۔ دونوں کو قسم نہیں دی جائے گی۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

اذا اختلف الشفيع و المشتری فی الثمن فالقول قول المشتری و لا يتخالفان و لواقا ما البينة فا البينة بينة الشفيع عند ابي حنيفة و محمد

(فتاویٰ عالمگيري‘ 5: 185)

اگر بیچنے والا حق شفعہ والی قیمت میں اختلاف کریں تو بات خریدنے والے کی مانی جائے گی۔ دونوں کی قسم نہیں دی جا سکتی۔ اگر دونوں نے گواہی پیش کر دی تو شفعہ کرنے والے کی گواہی مانی جائے گی‘ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام محمدصکے نزدیک۔

اگر خرید و فروخت میں زمین کے بدلے زمین لی گئی ہے تو حق شفعہ والا ان دونوں میں سے کسی ایک زمین کی قیمت ادا کر کے زمین لے سکتا ہے۔

وان باع عقارا بعقادر اخذ الشفيع کل واحد منهما بقيمة الاخر لانه لابد و هو في دولت القيم فياخذه بقيمة

(هدايه‘ 4: 399)

اگر کسی نے غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین‘ زمین کے بدلے بیچی تو حق شفعہ والا ان دونوں میں سے ہر ایک دوسری کی قیمت سے لے سکتا ہے کیونکہ ہر زمین دوسرے کا بدل ہے اور قیمتی چیز ہے۔ پس ایک کو دوسری کی قیمت پر لے سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی