کیا بیعتِ سلوک و طریقت سنتِ رسول (ص) سے ثابت ہے؟


سوال نمبر:4122
السلام علیکم مفتی صاحب! بیعت سلوک و طریقت کی اصل کیا بیعت رسول سے ثابت ہے؟

  • سائل: محمد راحیل ثانوی نقشبندیمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 04 فروری 2017ء

زمرہ: بیعت

جواب:

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔ یہ ایک دوطرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں بیعت لینے والا تمام نیک و جائز امور میں راہنمائی کا وعدہ کرتا ہے اور بیعت کرنے والا نیک و جائز امور میں اس کی اطاعت اور پیروی کا اقرار کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں نہ صرف بیعت کی کئی مثالیں موجود ہیں بلکہ عامۃ الناس کو رشد و ہدایت کے لیے راہبر کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا.

جسے اﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے۔

الْكَهْف، 18: 17

اس عامۃ الناس کو راهِ حق کے لیے کسی ’ہدایت یافتہ‘ ولی مرشد کی روہنمائی درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جسے راہنمائی کے لیے چنا جا رہا ہے وہ خود عالمِ باعمل اور صحیح العقیدہ ہو تاکہ بیعت کا اصل مقصد حاصل ہوسکے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابیات رضوان اللہ علیھن اجمعین سے بیعت لی تو اس کا تذکرہ قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں کیا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO

اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

الْمُمْتَحِنَة، 60: 12

احادیثِ مبارکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بیعت لینے کا واقعہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے روایت کیا جو غزوۂ بدر میں شریک تھے اور بیعت عقبہ والوں میں ایک نقیب تھے۔ جب صحابہ کرام رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا:

بَيِعُونِي عَلَی أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاﷲِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ، وَلَا تَتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَی مِنْکُمْ فَأَجْرُهُ عَلَی اﷲِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ کَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اﷲُ فَهُوَ إِلَی اﷲِ إِنْ شَائَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَائَ عَاقَبَهُ۔ فَبَيَعْنَهُ عَلَی ذٰلِک.

مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، جانتے بوجھتے کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور نیکی کے کاموں میں نافرمانی نہیں کرو گے۔ تم میں سے جس نے یہ عہد پورا کیا تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر اور جو ان میں سے کسی کے اندر مبتلا ہو جائے اور دنیا میں اس کی سزا ملی تو وہ اس کا کفارہ ہو گیا اور جو ان میں سے کسی بات میں پڑا، پھر اللہ نے اس پر پردہ ڈالے رکھا تو وہ اللہ کے سپرد کہ چاہے معاف فرمائے اور چاہے اسے سزا دے۔ ہم نے اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔

  1. بخاري، الصحيح، 1: 15، رقم: 18، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1333، رقم: 1709، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 314، رقم: ۲۲730، مصر: مؤسسة قرطبة

ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه; يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ رضی الله عنه ، قَامَ فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ، وَقَالَ: عَلَيْکُمْ بِاتِّقَائِ اﷲِ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ، وَالْوَقَارِ، وَالسَّکِينَةِ، حَتَّی يَئْتِيَکُمْ أَمِيرٌ، فَإِنَّمَا يَئْتِيکُمْ الْآنَ. ثُمَّ قَالَ: اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِکُمْ، فَإِنَّهُ کَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ. ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی أَتَيْتُ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْتُ: أُبَيِعُکَ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ: (وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ). فَبَيَعْتُهُ عَلَی هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَکُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ.

حضرت زیاد بن علاقہ رضی اللہ عنہ; سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جریر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ; سے سنا کہ جس روز حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ; فوت ہوئے تو وہ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا تم پر اللہ سے ڈرنا ضروری ہے جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور وقار واطمینان سے رہنا، یہاں تک کہ دوسرا امیر آ جائے جو تمہارے پاس آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے امیر سے درگزر کرو کیونکہ وہ درگزر کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ پھر فرمایا اما بعد: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ مجھے اسلام پر بیعت فرما لیجئے۔ آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کا خیر خواہ رہنے کی شرط بھی فرمائی تو میں نے اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کر لی لہٰذا اس مسجد کے رب کی قسم، میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ پھر دعائے استغفار کی اور اتر آئے۔

  1. بخاري، الصحيح، 1: 31، رقم: 58
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 357، رقم: 19175

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں پر بیعت لینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، یہ سنت آج تک جاری ہے۔ صلحائے امت عامۃ الناس سے صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے بیعت لیتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا اسلام میں کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری