شوہر کے الفاظ‌ ’جا میں نے تجھے چھوڑ دیا‘ سے کونسی طلاق واقع ہوگی؟


سوال نمبر:4105
السلام علیکم مفتی صاحب! میں نے بیوی کی حرکتوں سے تنگ آ کر اسے کہا: جا میں نے تجھے چھوڑ دیا، یہ لفظ میں نے ایک سے زیادہ بار کہا۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے میری نیت طلاق ہی کی تھی، کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟

  • سائل: عبداللہ بہادرمقام: پونے، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 30 نومبر -0001ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق بائن  |  طلاق کنایہ

جواب:

بصورتِ مسئلہ اگر آپ نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے کہا کہ ’جا میں نے تجھے چھوڑ دیا‘ تو ان الفاظ سے طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے۔ طلاق بائن سے میاں بیوی کے درمیان فوراً جدائی پیدا ہوجاتی ہے اور طلاق کے ساتھ ہی یکسر رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہے۔ طلاقِ بائن کے بعد شوہر کو رُجوع کا حق نہیں رہتا، البتہ عدّت کے دوران یا عدّت ختم ہونے کے بعد بھی دوبارہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

الْکِنَايَاتِ إِذا نَوَی بهَا الطلاَقَ کَانَتْ وَاحِدَةً بَائِنَةً، وَإِنْ نَوَی بِهَا ثَلاَثاً کَانَتْ ثَلاَثاً، وَإِنْ نَوَی اثْنَتَيْنِ کَانَتْ وَاحِدَةً، وَهَذَا مِثْلُ قَوْلِهِ: اَنْتِ بَائِنٌ، وَبَتَّةٌ، وَبَتْلَةٌ، وَحَرَامٌ، وَحَبْلُکِ عَلَی غَارِبِکِ، وَالْحَقی بِاَهْلِک، وَخَلِيَةٌ، وَبَرِيّةٌ، وَوَهَبْتُکِ لاهْلِکِ، وَسَرَّحْتُکِ، وَاخْتَارِيْ، وَفارَقْتُکِ، وَاَنْتِ حُرَّةٌ، وَتَقَنَّعِي، وَتَخَمَّرِي، وَاسْتَتِرِيْ، وَاغْرُبِيْ، وَابْتَغِي الاَزْوَاجَ، فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُ نِيَةٌ لَمْ يَقَعْ بِهٰذِهِ الاَلْفَاظِ طَلاَقٌ؛ إِلا اَنْ يَکُوْنَا فِيْ مُذَاکَرَةِ الطّلاَقِ؛ فَيَقَعُ بِهَا الطّلاَقُ فِيْ الْقَضَاءِ، وَلاَيَقَعُ فِيْمَابَيْنَةُ وَبَيْنَ اﷲِ تَعَالَی إِلاَّ اَنْ يَنْوِيَهُ، وَإِنْ لَمْ يَکُوْنَا فِيْ مَذَاکَرَةِ الطّلاَقِ، وَکَانافِيْ غَضَبٍ اَوْ خُصُوْمَةٍ، وَقَعَ الطّلاَقُ بِکُلِّ لَفْظٍ لاَ يُقْصَدُ بِهِ السَّبُّ وَالشَّتِيْمَةُ، وَلَمْ يَقَعْ بِمَا يُقْصَدُبِهِ السَّبُّ وَالشَّتِيْمَةُ إِلاَّ اَنْ يَنْوِيَةُ.

’’الفاظِ کنایات سے جب نیت طلاق کی ہو تو کنایہ سے طلاقِ بائن واقع ہوگی، اگر تین کی نیت کرے گا تو تین ہو جائیں گی۔ دو کی نیت کرے گا تو ایک ہو گی۔ اس کی مثال یہ الفاظ ہیں: تو بائن (جدا) ہے، الگ ہے، حرام ہے، تیری رسّی تیری گردن پر، اپنے میکے سے جا مل لے، تو خالی ہے، الگ تھلگ ہے، آزاد ہے، میں نے تجھے تیرے میکے کو بخش دیا، میں نے تجھے آزاد کیا، اختیار کر لے، میں نے تجھے چھوڑ دیا، تو آزاد ہے، دوپٹہ کر لے (مراد شادی کر لے)، چادر اوڑ لے، پردہ پوشی کر لے، غریب الوطن ہو جا اور خاوند ڈھونڈ لے۔ اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں مگر یہ کہ جب طلاق کا مذاکرہ ہو رہا ہے تو اس میں قضاء طلاق ہو جائے گی، اور خاوند اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان نیت کے بغیر نہ ہوگی۔ اگر دونوں میں مذاکرہ طلاق نہ ہو رہا ہو اور دونوں غصہ میں ہوں اور جھگڑ رہے ہوں تو ہر لفظ سے طلاق ہو جائے گی بشرطیکہ مقصد گالی گلوچ نہ ہو۔ اور مقصد گالی گلوچ ہو تو نیت طلاق کے بغیر طلاق نہ ہو گی۔‘‘

  1. احمد بن محمد البغدادي المعروف بالقدوري، مختصر القدوري: 363. 364، موسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
  2. برهان الدين علي المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 241، المکتبة الاسلامية

اپنے سوال میں آپ نے وضاحت کی ہے کہ الفاظ کنایہ ’جا میں نے تجھے چھوڑ دیا‘ بولتے ہوئے آپ کی نیت طلاق کی تھی تو ان سے طلاقِ بائن واقع ہوگئی، اور نکاح فوراً ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے یہ الفاظ جتنی بار بھی بولے وہ مؤثر نہیں ہیں، کیونکہ طلاق بائن واقع ہونے کے بعد نکاح ختم ہوگیا اور عورت آپ کی بیوی نہیں رہی۔ طلاقِ بائن کے بعد رُجوع کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ دونوں باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کر لیں، اس صورت میں شوہر کے پاس طلاق کے دو حق باقی رہ جائیں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری