کیا قضا و قدر کے مسئلے میں غور و فکر کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:41
کیا قضا و قدر کے مسئلے میں غور و فکر کرنا جائز ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2011ء

زمرہ: ایمانیات  |  ایمانیات

جواب:

جی نہیں! کیونکہ قضاء و قدر کے مسائل کو عام لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ اس میں زیادہ غور و فکر کرنا دین و ایمان کے تباہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلے پر بحث کرنے سے سخت منع فرمایا ہے۔

عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ نَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدْرِ، فَغَضَبَ حَتّٰي اِحْمَرَّ وَجْهُه حَتّٰي کَانَّمَا فُقِيَ فِيْ وَجْنَتَيْهِ حَبُّ الرُّمَّانِ، فَقَالَ : اَبِهٰذَا اُمِرْتُمْ اَمْ بِهٰذَا اُرْسِلْتُ اِلَيْکُمْ؟ اِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حِيْنَ تَنَازَعُوْا فِيْ هٰذَا الْاَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْکُمْ اَنْ لَّا تَنَازَعُوْا فِيْهِ.

ترمذي، السنن، کتاب القدر، 4 : 44، رقم : 2133

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم تقدیر کے مسئلہ میں بحث کر رہے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس شدتِ غضب سے سرخ ہو گیا کہ گویا انار کے دانے آپ کے عارضِ اقدس پر نچوڑ دیے گئے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم کو اسی کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں تمہاری طرف اسی چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلی قومیں اسی وقت ہلاک ہوئیں جب انہوں نے قضا و قدر کے مسئلہ میں مباحثہ کیا۔ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ آئندہ اس مسئلہ میں بحث نہ کرنا۔‘‘

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔