جواب:
قطع نظر مذہب و ملت کے، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں۔ فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت عالی و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ عفت و حیاء کو جزو ایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں۔ ان ہی امتوں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔
اسلامی معاشرے کو ایسی گندی، خبیث، گھناؤنی عادات سے بچانے کے لئے اﷲ نے اس جرم کے مرتکب کے لئے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللَّذَانَ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًاo
اور تم میں سے جو بھی کوئی بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا پہنچاؤ، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں تو انہیں سزا دینے سے گریز کرو، بیشک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔
(النساء، 4 :16)
ابومسلم اصفہانی نے درج بالا آیت کو ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیا ہے۔ ان کی راے میں اس آیت میں لواطت کی سزا بیان کی گئی ہے۔
رازی، التفسير الکبير، 9/ 187
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تصنیف سنن ترمذی میں اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل کرنے کے بعد اس پر آئمہ کرام اور علماء کی آراء بیان کی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ:
قَالَ رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنهما قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو فَقَالَ مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ وَلَمْ يَذْکُرْ فِيهِ الْقَتْلَ وَذَکَرَ فِيهِ مَلْعُونٌ مَنْ أَتَی بَهِيمَةً وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ اقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ وَلَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ غَيْرَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ فَرَأَی بَعْضُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِ الرَّجْمَ أَحْصَنَ أَوْ لَمْ يُحْصِنْ وَهَذَا قَوْلُ مَالِکٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرُهُمْ قَالُوا حَدُّ اللُّوطِيِّ حَدُّ الزَّانِي وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ.
نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے پائو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔ اس باب میں حضرت جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ ہم اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اسی طریق سے پہچانتے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا اور فرمایا قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون ہے، قتل کا ذکر نہیں کیا۔ نیز یہ بھی مذکور ہے کہ چوپائے سے بدفعلی کرنے والا بھی ملعون ہے۔ بواسطہ عاصم بن عمر، سہیل بن ابی صالح اور ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاعل اور مفعول (دونوں) کو قتل کر دو۔ اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے، ہم نہیں جانتے کہ اسے عاصم کے سوا کسی اور نے سہیل بن ابی صالح سے روایت کیا ہو۔ عاصم بن عمر حفظ کے اعتبار سے حدیث میں ضعف ہے، لوطی کی سزا میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک شادی شدہ ہو یا کنوارہ اس پر رجم ہے، یہ امام مالک، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہم اﷲ کا قول ہے۔ بعض فقہاء و تابعین جن میں حضرت حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اﷲ شامل ہیں، فرماتے ہیں لواطت کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ رحمہم اﷲ کا بھی یہی قول ہے۔
ترمذي، السنن، 4: 57، رقم: 1456، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
مذکورہ بالا احادیث کو امام حاکم، ابنِ ماجہ، امام نسائی، امام بیہقی، امام احمد بن حنبل، امام طبرانی، امام عبدالرزاق اور امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیھم اجمعین سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے۔
ہم جنس کی سزا کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ عبدالرحمان الجزیری نے الفقه علیٰ المذاهب الاربعة میں فقہائے احناف کے مؤقف کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ:
امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہم جنس پرست کی سزا حد نہیں، تعزیر ہے۔ جبکہ امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیھما حد کے قائل ہیں۔
الجزيری، عبدالرحمٰن، کتاب الفقه علیٰ المذاهب الاربعة، 5: 141، دارالفکر، بيروت، لبنان
ہم حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کی سزا تعزیراً مقرر کرنے کے قائل ہیں۔ تعزیرات میں حاکمِ وقت (قانون ساز) یا عدالت کو اختیار ہوتا ہے کہ مجرم کو ایسی سزا دے کہ جس سے دوسروں کو عبرت ہو اور کوئی اس جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کرے۔ کیس کی نوعیت کے اعتبار سے قاضی، مجرم کو عمر قید، قید، جرمانہ، ملک بدری یا سزائے موت بھی دے سکتا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس نے جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے یقینا وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہے، جن میں سے کچھ کا احساس ہمیں ہو پاتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ ہم جنسی بھی فحش عمل اور بدکاری ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور جس کے برے نتائج آرہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس سے بچنا خدا کا حکم ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا فرض ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔