کیا فون کال پر نکاح کی گواہی قابلِ‌ قبول ہے؟


سوال نمبر:3920
کیا نکاح کے موقع پر گواہوں کی موجودگی ضروری ہے؟ اگر گواہ فون کال پر ہو تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی؟

  • سائل: زین عالممقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 28 مئی 2016ء

زمرہ: وکالت نکاح

جواب:

گواہ اور شاہد وہی ہوتا ہے جو واقعہ کے وقوع کے وقت وہاں موجود ہو۔ نکاح کے درست انعقاد کے لیے عاقل بالغ لڑکے لڑکی کی رضا مندی اور دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بعوض حق مہر ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے، ورنہ نکاح قائم نہیں ہوتا۔ آئمہ فقہاء کے نزدیک:

ولا ينعقد نکاح المسلمين الا بحضور شهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل و امرأتين.

دو مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں ہوتا جب تک، دو آزاد ، عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ موجود ہوں۔

مرغيناني ، الهداية شرح البداية، 1: 190، المکتبة الاسلامية

گواہی فریقین کے درمیان لڑائی، جھگڑا، دھوکہ فراڈ اور دیگر خطرناک مسائل پیدا ہونے سے بچنے کی خاطر ضروری ہے۔ مثلاً دو آدمی کوئی چیز ایک دوسرے کو بیچتے ہیں یا تبادلہ کرتے ہیں لیکن بعد میں کوئی مسئلہ ہو گیا تو وہ آپس میں لڑ پڑیں تو کوئی ایسا ہونا چاہیے جو فیصلہ کرنے والے کو بتائے کہ یہ چیز کس کی ہے، کیونکہ وہ تو دونوں نہیں مانیں گے۔ اس طرح نکاح میں دو گواہوں کا ہونا لازم رکھا گیا ہے تاکہ ہر زنا کرنے والا جوڑا بھی پکڑے جانے پر یہ نہ کہہ دے کہ ہم نے نکاح کر رکھا ہے یا کوئی بھی کسی عورت کو پکڑے اور دعوی کر دے یہ میری بیوی ہے، وہ شور کرتی رہے کہ میں اس کی بیوی نہیں ہوں، تو فیصلہ گواہوں پر ختم ہو گا کہ آپ کا نکاح کب ہوا اور اس وقت گواہ کون تھے؟ ان کو حاضر کریں۔ اسی طرح قتل، زناء اور دیگر معاملات میں گواہ نہ ہوں تو ہر کوئی جو چاہے دعوی کرتا بیٹھے اس کو حل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لہذا گواہی بہت سارے مسائل کا حل ہے۔ اگر فون کی گواہی ان لوازمات کو پورا کر رہی ہے تو جائز، ورنہ نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری