کیا بیٹیاں‌ وراثت سے اپنا حصہ مانگنے کا حق رکھتی ہیں؟


سوال نمبر:3905
السلام علیکم! ایک آدمی کی 4 بیٹیاں‌ اور 4 بیٹے تھے۔ اس نے اپنی 120 ایکڑ زمین اپنی زندگی میں‌ ہیں‌ بیٹوں‌ کے نام کر دی اور 1982 میں‌ اس کی وفات کے بعد اس کی ساری جائیداد بیٹوں کے نام منتقل ہوگئی۔ اب ایک بیٹی غربت کی انتہائی صورتحال سے گزر رہی ہے اور فاقوں پر مجبور ہے۔ براہِ مہربانی راہنمائی فرمائیں کیا مذکورہ بیٹی اس زمین میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ کیا وہ اس سلسلے میں‌ عدالت کی مدد لے سکتی ہے؟ اور اگر بھائی اس کا حصہ دینے سے انکار کریں تو شریعت کا کیا حکم ہے؟

  • سائل: محمد آصف حسنمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 14 مئی 2016ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

تقسیمِ‌ وراثت کے شرعی اصولوں‌ کے مطابق چار بیٹیوں اور چار بیٹوں میں ایک سو بیس (120) ایکڑ زمین کی تقسیم اس طرح ہونی تھی کہ ہر بیٹے کو بیس (20) اور ہر بیٹی کو دس (10) ایکڑ ملنے تھے۔ ان کے والد نے اپنی زندگی میں ہی ساری زمین بیٹوں کے نام کر کے بیٹیوں کا حق مارا، ان کے ساتھ ظلم کیا اور بیٹوں کی محبت میں آخرت کا بارِ گراں اپنے سر لیا۔ قرآنِ مجید ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:

وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO

اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے) اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔

الْفَجْر، 89: 19-20

لہذا بیٹے اگر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی بہنوں کو ان کا حصہ بخوشی دیں، کیونکہ بیٹیاں شرعاً اور قانوناً اس جائیداد میں حصہ دار ہیں اور بذریعہ عدالت اپنا حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری