فلم اور ڈرامے میں‌ دی جانے والی طلاق کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3844
السلام علیکم! مفتی صاحب میرے دوسوال ہیں: اگر کوئی شخص ٹی وی پر طلاق کے مسائل سن رہا تھا اور اسے طلاق کے لفظ سے بھی نفرت تھی اس نے کہا ’کبھی نہیں‌ دوں‌ گا طلاق، طلاق، طلاق‘ پھر کہا ’کبھی نہیں‌ دوں‌ گا طلاق، طلاق، طلاق‘ کیا اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ لوگ ڈراموں میں ’طلاق، طلاق، طلاق‘ بول دیتے ہیں، کیا اسطرح بھی طلاق ہو جاتی ہے؟

  • سائل: محمد طاہرمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 15 مارچ 2016ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل  |  طلاق

جواب:

فقط لفظِ طلاق بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ مذکورہ شخص کی طلاق کے لفظ سے عجیب نفرت ہے کہ بار بار طلاق کا لفظ بول بھی رہا ہے اور نفرت کا اظہار بھی کر رہا ہے؟

طلاق خواہ سنجیدگی میں دی جائے یا مذاق میں، جھوٹی ہو یا سچی، فرضی ہو یا حقیقی، طلاق واقع ہو جائے گی۔ حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا ارشاد ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع‘‘

  1. ابي داود، السنن، 2: 259، رقم: 2194، دار الفکر
  2. ترمذي، السنن، 3: 490، رقم: 1184، دار احياء التراث العربي بيروت

شارع علیہ السلام کے اس فرمان کی روشنی میں اگر کسی نے اپنی حقیقی بیوی کو مذاق یا فلم یا ڈرامے میں طلاق دی، تو طلاق ہوجائے گی۔ لیکن اگر کوئی عورت ڈرامے میں کسی مرد کی بیوی کا کردار ادا کر رہی ہے اور حقیقی زندگی میں وہ میاں بیوی نہیں ہیں، تو طلاق دینے سے طلاق مؤثر نہیں ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری