کیا مسجد کی زمین فروخت کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:3814
السلام علیکم! ہمارے علاقے میں 30 سال پہلے مسجد کے متولین نے مسجد کی زمین فروخت کر کے وصول شدہ رقم مسجد کی تعمیر پر لگا دی۔ یہ زمین مسجد کے ساتھ متصل تھی جس پر اب چار گھر بن چکے ہیں۔ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

  • سائل: محمد آصف حسنمقام: واں بھچراں، میانوالی
  • تاریخ اشاعت: 01 مارچ 2016ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

مسجد کے لیے وقف جو اشیاء مسجد کے استعمال میں نہ ہوں، ان کو فروخت کر کے رقم مسجد پر صرف کرنا جائز ہے اور جس شخص نے یہ اشیاء خریدی ہوں، وہ ان کو بلاشبہ استعمال کرسکتا ہے۔ مذکورہ صورت میں مسجد انتظامیہ نے مسجد سے متصل زمین فروخت کر کے معاوضہ کی رقم مسجد پر صرف کی ہے، اس لیے خریدار کو اس زمین پر پورا تصرف حاصل ہے چاہے تو اسے استعمال کرے، فروخت کرے یا ہبہ کردے۔ اگر مسجد کی توسیع مقصود ہو تو ان گھر والوں سے زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کی جائے گی یا اگر وہ اپنی طرف سے وقف کر دیں تو بھی جائز ہے۔

فقہاء کرام فرماتے ہیں:

لأهل المحلة تحويل باب المسجد... لهم تحويل المسجد إلی مکان آخر إن ترکوه بحيث لايصلی فيه ولهم بيع مسجد عتيق لم يعرف بانيه وصرف ثمنه في مسجد آخر.

’’محلے دار مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں۔۔۔ اہل محلہ مسجد کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا اتہ پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔‘‘

ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 357، بيروت: دار الفکر للطباعة والنشر

حوض أو مسجد خرب وتفرق الناس عنه فللقاضي أن يصرف أوقافه إلی مسجد آخر ولو خرب أحد المسجدين في قرية واحدة فللقاضي صرف خشبة إلی عمارة المسجد الآخر.

’’حوض یا مسجد ویران ہو جائیں اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو قاضی (عدالت) کو اجازت ہے اس کے اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کسی اور مسجد پر صرف کرے۔ اگر ایک بستی (محلہ) میں، دو مسجدوں میں سے ایک ویران ہو جائے تو قاضی (عدالت) کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی (وغیرہ) دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے۔‘‘

  1. زين الدين ابن نجيم، البحر الرائق، 5: 273، بيروت: دار المعرفة
  2. عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر، 2: 595، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

لوخرب المسجد وماحوله وتفرق الناس عنه لايعود إلی ملک الوقف عند أبي يوسف فيباع نقضه بإذن القاضي ويصرف ثمنه إلی بعض المساجد.

’’اگر مسجد ویران ہوگئی اور آس پاس بھی ویران ہو گیا اور لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک وقف کرنے والے کی ملکیت میں دوبارہ نہیں لوٹے گی۔ لہٰذا قاضی کی اجازت سے اس کا ملبہ فروخت کر کے اس کی قیمت کسی اور مسجد پر صرف کی جائے گی۔‘‘

  1. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 359
  2. مرغيناني، الہداية شرح البداية، 3: 20، المکتبة الإسلامية
  3. ابن الہمام، شرح فتح القدير، 6: 236، بيروت: دار الفکر
  4. زيلعي، تبيين الحقائق، 3: 330، القاہرة: دار الکتب الإسلامي

عن شمس الأئمة الحلواني أنه سئل عن مسجد أو حوض خرب وليحتاج إليه لتفرق الناس عنه هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلی مسجد أو حوض آخر؟ فقال نعم.

’’شمس الائمہ الحلوانی سے پوچھا گیا کہ جو مسجد یا حوض ویران ہو گیا اور اس کی ضرورت نہ رہی لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے کیا قاضی اس کے اوقاف کسی دوسری مسجد یا حوض پر خرچ کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔‘‘

  1. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 359
  2. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 4: 478، بيروت: دار الفکر

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں۔

ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون کما هو مشاهد وکذلک أوقافه يأکلها النظار أو غيرهم ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلی النقل إليه.

’’خصوصاً ہمارے زمانہ میں کہ مسجد، اصطبل یا حوض جب دوسری جگہ نقل نہ کئے گئے تو چور اور قابض باغی عناصر نے ان کے ملبہ پر قبضہ کر لیا جیسا کہ ہمارے مشاہدہ میں ہے۔ یونہی اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کو منتظمین وغیرہ کھا جاتے ہیں۔ اس ملبہ کو دوسری جگہ منتقل نہ کرنے سے دوسری مسجد جس کو اس سامان کی ضرورت ہے، وہ ویران رہتی ہے۔‘‘

ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 360

معلوم ہوا ایک تعمیر شدہ مسجد اگر ویران ہو جائے تو اُسے فروخت کر کے دوسری مسجد پر خرچ کر سکتے ہیں تو پھر بدرجہ اولیٰ مسجد کے لیے وقف شدہ اضافی زمین کو بیچ کر نئی مسجد بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔ ایسے مسائل ضرورت وحالات کے پیش نظر ہوتے ہیں، مقصد دین اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے مواقع پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا مسجد کے لیے وقف شدہ زمین اگر ضرورت سے زیادہ ہو تو اُسے بیچ کر مسجد کی تعمیر وقت پر کر دی جائے تو بہتر ہے نہ کہ چندے کا انتظار کرتے کرتے کئی سال گزار دئیے جائیں۔

نبی اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے بنو نجار سے زمین کے لیے بات کی اور انہیں قیمت کی پیش کش کی، تاہم انہوں نے مطلوبہ زمین مسجد کے لیے اللہ کی خاطر وقف کر دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے کے لیے بھی جگہ خریدی جائے اور اگر کوئی شخص اپنی رضا اور خوشی سے مسجد کے لیے جگہ وقف کر دے تو اسکی مرضی، مگر کسی کی جگہ پر قبضہ کر کے مسجد بنانے کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری