جس شخص پر ارتداد کا الزام ہو اس کا جنازہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3804
السلام وعلیکم! میرا تعلق اڑیسا، انڈیا سے ہے۔ ہمارے یہاں‌ ایک پیر صاحب تھے جو سید بھی تھے۔ ان کے بارے میں‌ باون 52 کے قریب مفتیانِ کرام نے فتویٰ‌ جاری کیا کہ ’ان پیر صاحب کا فلاں‌ قول اور فعل کفر کی حدوں‌ کو چھو رہا ہے اور انہوں‌ نے کفر کیا ہے‘۔ اب ان پیر صاحب کی وفات ہوچکی ہے۔ مفتیانِ کرام ان کے مریدین پر زور دے رہیں کہ وہ پیر صاحب کی بیعت کو توڑ کر کسی دوسرے کے حلقہ ارادت میں شامل ہو جائیں ورنہ ان کے ہاتھ کا ذبیح حرام ہے اور ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جائے گا۔ جو ان مریدین کا جنازہ پڑھے کا اس کا نکاح ٹوٹ‌ جائے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی کا جنازہ پڑھنے سے نکاح‌ پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ جنازہ کس شخص کا نہیں پڑھنا چاہیے؟ براہِ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں‌ راہنمائی فرمادیں۔ شکریہ

  • سائل: شادابمقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 19 فروری 2016ء

زمرہ: مرتد اور باغی کے احکام

جواب:

مذکورہ پیر صاحب کے بارے میں ہم رائے دینے سے قاصر ہیں کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ اُن کے کن افعال و اقوال کی بنیاد پر مفتیانِ کرام نے ان پر کفر کا فتویٰ جاری کیا ہے۔

ضروریات دین جیسے: توحید، رسالت، آخرت، ملائکہ نزول کتب پر ایمان‘ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی فرضیت‘ زنا، قتل، چوری اور شراب خوری کی ممانعت‘ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کا اقرار وغیرہ جیسے احکام قطعیہ کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اسے مرتد کہتے ہیں۔ اگر مرتد کو مسلمان سمجھتے ہوئے اس کا جنازہ پڑھا جائے تو اُسے مسلمان سمجھنے والا اور اس کا جنازہ پڑھنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا نکاح بھی قائم نہیں رہتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

✍️ مفتی تعارف

یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔