جواب:
یہ بات درست ہے کہ اوائل اسلام میں رفع یدین کیا جاتا تھا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے منسوخ کر دیا۔ احناف کے ہاں اس پر قوی دلائل موجود ہیں۔ جیساکہ امام مسلم کی روایت ہے:
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة الخ
(صحيح مسلم، 1: 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
اس حدیث پاک میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے۔ امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں:
قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فصلی فلم يرفع يديه الا فی اول مرة
ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
بہرحال نماز میں رفع یدین ایک فروعی مسئلہ ہے جسے ’اسلام اور کفر‘ کا مسئلہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ رفع یدین کرنا اور اسے ترک کرنا دونوں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک عمل ہیں، دونوں کو اللہ تعالیٰ نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس مسئلہ میں لڑنا، جھگڑنا تعصب اور جہالت سے خالی نہیں ہے۔
ترکِ رفع یدین سے متعلق مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے:
تکبیر اولیٰ کے علاوہ نماز میں رفع یدین نہ کرنے کا بیان
کیا رفع الیدین نہ کرنے کے بارے میں کوئی حدیث ہے؟
آپ نے بغل میں بت رکھنے کی وجہ سے رفع یدین کو ترک کرنے کے بارے میں جو کچھ سنا ہے وہ من گھڑت اور لغو ہے۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔