اسلام میں ولیمہ کے متعلق کیا احکام ہیں؟


سوال نمبر:3786
السلام علیکم! کیا ولیمہ میں رشتے داروں کو بلانا ضروری ہے؟ یا ولیمہ مستحق افراد مثلاً ایدھی سینٹر یا ایسی کسی جگہ پر مقیم افراد جہاں پر کھانے کمی ہو، کو بھی کھلا کر کیا جاسکتا ہے؟

  • سائل: علی رضامقام: ملتان، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 11 فروری 2016ء

زمرہ: ولیمہ

جواب:

ولیمہ ایک مسنون دعوت ہے جو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خوشی میں مسلمان مرد کی طرف سے کی جاتی ہے۔ رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کی دعوتِ طعام کرنے سے خوشی کالطف دوبالا ہوجاتا ہے اور نئے گھر کے آغاز پر خاندان مل کر اظہار محبت کرتے ہیں، ناداروں اور مفلسوں کو کھانا کھلانے سے وہ بھی اس خوشی میں شریک ہوجاتے ہیں جس سے برکت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخراجات کی ترتیب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو، پھر اگر کچھ بچے تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو، پھر اگر اپنے اہل و عیال سے کچھ بچے تو اپنے رشتہ داروں پر اور اگر رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ جائے تو ادھر ادھر اپنے سامنے، دائیں بائیں والوں پر خرچ کرو۔ اسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ.

آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔

البقرة، 2: 215

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا.

اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔

النساء، 4: 36

سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا.

اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔

بنی اسرائيل، 18: 26

سیدنا انس رضی اللہ عنہ، رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولیمہ کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مَا اَوْلَمَ رَسُولُ اﷲِ عَلَی امْرَاَةٍ مِنْ نِسَائِهِ اَکْثَرَ اَوْ اَفْضَلَ مِمَّا اَوْلَمَ عَلَی زَيْنَبَ فَقَالَ ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ بِمَا اَوْلَمَ؟ قَالَ اَطْعَمَهُمْ خُبْزًا وَلَحْمًا حَتَّی تَرَکُوهُ.

’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینب کے ولیمہ سے بڑھ کر اور عمدہ ولیمہ کسی اور زوجہ سے نکاح کے موقع پر نہیں کیا۔ راوی نے پوچھا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولیمہ میں کیا کھلایا تھا، انہوں نے کہا لوگوں کو اس قدر روٹیاں اور گوشت کھلایا کہ لوگوں نے کھانا چھوڑ دیا۔‘‘

مسلم، الصحيح، 2: 1049، رقم: 1428، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي

رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ولیمے کو بدترین قرار دیا جس میں اغنیاء کی دعوت کی جائے اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّهُ کَانَ يَقُولُ شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدْعَی لَهَا الْاَغْنِيَاءُ وَيُتْرَکُ الْفُقَرَاءُ وَمَنْ تَرَکَ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَی اﷲَ وَرَسُولَهُ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے بُرا ولیمہ کا وہ کھانا ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور غریب نظر انداز کردیے جائیں۔ نیز جو دعوت کو قبول نہ کرے اس نے اﷲ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔‘‘

بخاري، الصحيح، 5: 1985، رقم: 4882، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

اس لیے حسبِ استطاعت دعوتِ ولیمہ کا انتظام کیا جائے اور رشتہ داروں، دوستوں، ہمسایوں، غرباء، مساکین اورر مستحقین کو دعوتِ ولیمہ میں شامل کیا جائے۔ تمام وسائل نمود و نمائش پر خرچ کرنے اور قرض اٹھا کر دکھاوے کے لیے بڑی بڑی دعوتوں سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری