مشروط طلاق کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3752
السلام علیکم! حالِ واقعہ یہ ہے کہ میرا اپنی بھابھی کے ساتھ جھگڑا ہو گیا۔ اس جھگڑے میں میری بیوی بھابھی کا ساتھ دے رہی تھی۔ میں‌ نے لڑائی کے دوران اسے کہا کہ آج کے بعد توں‌ نے اس کے ساتھ بات چیت کی تو تجھے تین طلاقیں۔ آج صبح کیچن میں‌ کھانا بناتے ہوئے بھابھی نے میری بیوی سے کچھ پوچھا تو اس نے بتا دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح طلاق واقع ہوگئی؟

  • سائل: آصف حمیدمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 18 نومبر 2015ء

زمرہ: تعلیق طلاق  |  طلاق  |  طلاق مغلظہ(ثلاثہ)

جواب:

اپنے سوال میں آپ نے بتایا کہ آپ نے تین طلاقیں اس شرط کے ساتھ دیں کہ اگر آپ کی بیوی آپ کی بھابھی سے بات کرے تو اسے تین طلاق۔ اس صورت میں دی جانے والی طلاق ’طلاقِ مشروط‘ کہلاتی ہے۔ اس کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ:

و اذا اضافه الیٰ شرط وقع عقيب الشرط

اور اگر خاوند نے طلاق کو شرط کے ساتھ مشروط کیا، جب شرط پائی جائے گی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔

الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاویٰ الهنديه،1: 420، دارالفکر

و ألفاظ الشرط إن و إذا و إذا ما وکل و کلما ومتی و متی ما ففی هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت و انتهت اليمين.

"جب" اور "اگر" کے الفاظ کے ذریعے طلاق کو مشروط کیا گیا تھا تو شرط پائی جانے سے طلاق واقع ہو جائے گی اور قسم ختم ہو جائے گی۔

مرغيناني، بداية المبتدي، 1: 74، القاهرة، مكتبة ومطعبة محمد علي صبح

آپ نے بھی شرط کے ساتھ اپنی بیوی کو طلاق دی، اور شرط یہ تھی کہ وہ آپ کی بھابھی کے ساتھ بات کرے۔ جب اس نے آپ کی بھابھی کے ساتھ بات کی تو شرط پائی گئی اور طلاق واقع ہوگئی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی