کیا تورات، زبور اور انجیل کلام اللہ ہیں؟


سوال نمبر:3693
کیا فرماتے ہیں علمائے دینِ متین بیچ اس مسئلہ کے کہ زید کہتا ہے تورات، زبور اور انجیل اللہ پاک کا کلام نہیں ہیں اور بطور دلیل اس بات کو پیش کرتا ہے کہ اگر یہ کتابیں کلام الہی ہوتیں تو اس میں رد و بدل کیونکر ہوتا۔ اس کے علاوہ انجیل کے بارے میں مسیحی علماء نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انجیل اللہ کا کلام ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں انجیل حضرت عیسیٰ کا کلام یا ان کے واقعات ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اگر زید کا یہ قول درست نہیں تو اسکے متعلق کیا حکم ہے؟

  • سائل: حسنمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 15 ستمبر 2015ء

زمرہ: ایمان بالکتب

جواب:

انبیائے سابقہ علیہم السلام پر کتب سماویہ جیسے تورات، انجیل، زبور اور دیگر صحائف کا نزول برحق ہے۔ جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔

وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَة هُمْ يُوْقِنُوْنَo

’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔‘‘

البقرة، 2: 4

قُوْلُوْآ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰی اِبْرٰهيمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰی وَعِيْسٰی وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ج لَانُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَo

’’(اے مسلمانو!) تم کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرمانبردار ہیں۔‘‘

البقرة، 2: 136

کَانَ النَّاسُ اُمَّة وَّاحِدَة قف فَبَعَثَ اﷲُ النَّبِيّنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ط وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًام بَيْنَهُمْ ج فَهَدَی اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِهِ ط وَاﷲُ يَهْدِيْ مَنْ يَشَـآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo

’’(ابتداء میں) سب لوگ ایک ہی دین پر جمع تھے، (پھر جب ان میں اختلافات رونما ہوگئے) تو اﷲ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے اور اس میں اختلاف بھی فقط انہی لوگوں نے کیا جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں (اور انہوں نے یہ اختلاف بھی) محض باہمی بغض و حسد کے باعث (کیا) پھر اﷲ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے وہ حق کی بات سمجھا دی جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور اﷲ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے۔‘‘

البقرة، 2: 213

نَزَّلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰة وَالْاِنْجِيْلَo مِنْ قَبْلُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ط اِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌط وَاﷲُ عَزِيْزٌ ذُوْانْتِقَامٍo

’’(اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے۔ (جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لیے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بے شک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے۔‘‘

آل عمران، 3: 3، 4

وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَ مِنَ التَّوْرٰة وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِاٰيَة مِّنْ رَّبِّکُمْ قف فَاتَّقُوا اﷲَ وَاَطِيْعُوْنِo

’’اور میں اپنے سے پہلے اتری ہوئی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور یہ اس لیے کہ تمہاری خاطر بعض ایسی چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی تھیں اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں سو اﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کر لو۔‘‘

آل عمران، 3: 50

هٰاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّهِ ج

’’آگاہ ہو جاؤ! تم وہ لوگ ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تمہیں پسند (تک) نہیں کرتے حالاں کہ تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

آل عمران، 3: 119

اِنَّـآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْکَ کَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِيّنَ مِنْم بَعْدِهِ ج وَاَوْحَيْنَآ اِلٰی اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰی وَاَيُوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ج وَاٰتَيْنَا دَاؤدَ زَبُوْرًاo

’’(اے حبیب!) بے شک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیہم السلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (بھی) زبور عطا کی تھی۔‘‘

النسائ، 4: 163

وَکَيْفَ يُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰة فِيْهَا حُکْمُ اﷲِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَآ اُولٰـئِکَ بِالْمُؤْمِنِيْنَo اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰة فِيْهَا هُدًی وَّنُوْرٌج يَحْکُمُ بِهَا النَّبِيُوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اﷲِ وَکَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ ج فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلاً ط وَمَنْ لَّمْ يَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰئِکَ هُمُ الْکٰفِرُوْنَo

’’اور یہ لوگ آپ کو کیونکر حاکم مان سکتے ہیں در آنحالیکہ ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں اللہ کا حکم (مذکور) ہے۔ پھر یہ اس کے بعد (بھی حق سے) روگردانی کرتے ہیں، اور وہ لوگ (بالکل) ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا۔ اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (وگواہ) تھے۔ پس تم لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (وحکومت) نہ کرے، سو وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘

المائدة، 5: 43، 44

وَقَفَّيْنَا عَلٰی اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰة وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًی وَّنُوْرٌلا وَّمُصَدِّقًا لِّمَابَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰة وَهُدًی وَّمَوْعِظَة لِّلْمُتَّقِيْنَo وَ لْيَحْکُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فِيْهِ ط وَمَنْ لَّمْ يَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰئِکَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَo

’’اور ہم نے ان (پیغمبروں)کے پیچھے ان (ہی) کے نقوشِ قدم پر عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور (یہ انجیل بھی) اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والی (تھی) اور (سراسر) ہدایت تھی اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت تھی۔ اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس (حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘

المائدة، 5: 46، 47

وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰة وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَ کَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ط مِنْهُمْ اُمَّة مُّقْتَصِدَة ط وَکَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُوْنَo قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰة وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَيَزِيْدَنَّ کَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّـآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْيَاناً وَّکُفْرًا ط فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِيْنَo

’’اور اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کردیتے تو (انہیں مالی وسائل کی اس قدر وسعت عطا ہوجاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی) اور اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی) کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)۔ ان میں سے ایک گروہ میانہ رَو (یعنی اعتدال پسند ہے)، اور ان میں سے اکثر لوگ جو کچھ کررہے ہیں نہایت ہی برا ہے۔ فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شئے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقینا ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی، سو آپ گروهِ کفار (کی حالت) پر افسوس نہ کیا کریں۔‘‘

المائدة، 5: 66، 67

اِذْ قَالَ اﷲُ يٰعِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِيْ عَلَيْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَم اِذْ اَيَدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قف تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا ج وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَة وَالتَّوْرٰة وَالْاِنْجِيْلَ ج وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ کَهَيْئَة الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ فَتَنْفُخُ فِيْهَا فَتَکُوْنُ طَيْرًام بِاِذْنِيْ وَتُبْرِِئُ الْاَکْمَهَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِيْ ج وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِيْ ج وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِيْ اِسْرَآئِيْلَ عَنْکَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌo

’’جب اللہ فرمائے گا: اے عیسیٰ ابن مریم! تم اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میرا احسان یاد کرو جب میں نے پاک روح (جبرائیل) کے ذریعے تمہیں تقویت بخشی، تم گہوارے میں (بعہدِ طفولیت) اور پختہ عمری میں (بعہدِ تبلیغ و رسالت یکساں انداز سے) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت (و دانائی) اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور جب تم مادرزاد اندھوں اور کوڑھیوں (یعنی برص زدہ مریضوں) کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو (زندہ کر کے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہارے (قتل) سے روک دیا تھا جب کہ تم ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے تو ان میں سے کافروں نے (یہ) کہہ دیا کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

المائدة، 5: 110

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَ الْاُمِّيَ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهُ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰة وَالْاِنْجِيْلِ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْهِمْ طط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهِ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْ اُنْزِلَ مَعَهُ لا اُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود)۔ جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے۔ ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

الاعراف، 7: 157

وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّنَ عَلٰی بَعْضٍ وَّاٰتَيْنَا دَاؤدَ زَبُوْرًاo

’’اور آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں (آباد) ہیں، اور بے شک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔‘‘

الاسراء، 17: 55

وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَo

’’اور بلاشبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے۔‘‘

الانبياء، 21: 105

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰی اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَة وَّرَحْمَةط

’’پھر ہم نے ان رسولوں کے نقوشِ قدم پر (دوسرے) رسولوں کو بھیجا اور ہم نے ان کے پیچھے عیسٰی ابنِ مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔‘‘

الحديد، 57: 27

مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰة ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ط بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اﷲِط وَاﷲُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَo

’’اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسول کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

الجمعة، 62: 5

قرآن مجید میں صحائف کا بھی ذکر موجود ہے۔

اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰیo وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰیo اَلَّا تَزِرُ وَازِرَة وِّزْرَ اُخْرٰیo

’’کیا اُسے اُن (باتوں) کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں (مذکور) تھیں؟ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں تھیں) جنہوں نے (اﷲ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا۔ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

النجم، 53: 36- 38

بَلْ يُرِيْدُ کُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ يُؤْتٰی صُحُفًا مُّنَشَّرَةo

’’بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسے (براہِ راست) کھلے ہوئے (آسمانی) صحیفے دے دیے جائیں۔‘‘

المدثر، 74: 52

اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰیo صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰیo

’’بے شک یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔ (جو) ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحائف ہیں۔‘‘

الاعلی، 87: 18، 19

احادیث مبارکہ میں بھی صرف ایک کتاب نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی کتب پر ایمان لانے کو ایمان قرار دیا گیا ہے:

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَة قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَارَسُولَ اﷲِ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ اَنْ يُسْلِمَ قَلْبُکَ لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ وَاَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِکَ وَيَدِکَ قَالَ فَاَيُّ الْإِسْلَامِ اَفْضَلُ قَالَ الْإِيمَانُ قَالَ وَمَا الْإِيمَانُ قَالَ تُوْمِنُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ

’’حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یارسول اﷲ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اسلام یہ ہے کہ) تمہارا دل اﷲ تعالیٰ کے لئے سراپا تسلیم ہو جائے اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اُس نے عرض کیا: کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جس میں) ایمان کامل ہو۔ اُس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ) تم اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتب، اُس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان رکھو۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 4: 114، رقم: 17068، موسسة قرطبة مصر
  2. عبد الرزاق، المصنف، 11: 127، رقم: 20107، المکتب الاسلامي بيروت

عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِلنَّبِيِّ مَا الْإِيمَانُ قَالَ اَنْ تُوْمِنَ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام صَدَقْتَ قَالَ فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْالُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ ذَاکَ جِبْرِيلُ اَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ مَعَالِمَ دِينِکُمْ.

’’حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایمان) یہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر، یومِ آخرت اور تقدیر کے اچھا بُرا ہونے پر ایمان رکھو۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم اُس کے خود ہی سوال کرنے اور پھر تصدیق کرنے پر حیران ہوئے۔ آپ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ (ان کے جانے کے بعد) حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کے نمایاں پہلو سکھانے آئے تھے۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 1: 28، رقم: 191
  2. ابو يعلی، المسند، 1: 208، رقم: 242، دار المامون للتراث دمشق

لہٰذا تورات، انجیل، زبور اور دیگر صحائف سماویہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہیں اور اُسی نے اُن کتب کا نزول اپنے مختلف انبیاء کرام پر کیا۔ لیکن قرآن پاک کی طرح اُن کتب کی حفاظت کا ذمہ اﷲ تعالیٰ نے خود نہیں لیا۔ اس لئے ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اُن میں بہت زیادہ تحریف ہو چکی ہے اور نہ ہی اب وہ اپنی اصل زبان میں موجود ہیں لیکن ہم اُن کتب کی اصل کا کلام اﷲ ہونے سے انکار نہیں کرسکتے، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جو ان کتب کا انکار کرتا ہے وہ قرآن وحدیث کا انکاری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری