سجدہ کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟


سوال نمبر:3689
السلام علیکم مفتی صاحب! سنن ابی داؤد 840 میں نماز کے سجدے سے متعلق ہے کہ سجدہ کرتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنا چاہیے پھر گٹھنے۔ وضاحت فرمادیں کہ سجدہ کرنے کا درست انداز کیا ہے؟ پہلے ہاتھ زمین پر رکھنا چاہیے یا پہلے گٹھنے تکانے چاہیے؟ براہ مہربانی باحوالہ جواب عنائت فرمائیں۔

  • سائل: محمد علاؤالدینمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 03 ستمبر 2015ء

زمرہ: نماز  |  نماز کی سنتیں

جواب:

سجدہ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنوں کو زمین پر لگایا جائے، پھر ہاتھ پھر ناک اور آخر میں پیشانی زمین پر رکھی جائے۔ جب سجدے سے اٹھے تو پھر اس کے برعکس عمل کرے یعنی پیشانی سب سے پہلے زمین سے اٹھائی جائے پھر ناک پھر ہاتھ اور آخر میں گھٹنے اٹھائے جائیں۔ حدیث مبارکہ میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ:

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَاَيْتُ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ

’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔‘‘

  1. ابي داود، السنن، 1: 222، رقم: 838، دار الفکر
  2. ترمذي، السنن، 2: 56، رقم: 268، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 286، رقم: 882، دار الفکر بيروت
  4. دارمي، السنن، 1: 347، رقم: 1320، دار الکتاب العربي بيروت
  5. نسائي، السنن الکبری، 1: 229، رقم: 676، دار الکتب العلمية بيروت
  6. ابن حبان، الصحيح، 5: 237، رقم: 1912، مؤسسة الرسالة بيروت

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ امام حاکم نے المستدرک علی صحیحین، علی بن ابو بکر ہیثمی نے موارد الظمآن، امام بیہقی نے السنن الکبری اور امام دار قطنی نے السنن میں بھی نقل کی ہے۔

جس حدیث مبارکہ کے بارے میں آپ نے دریافت کیا اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ إِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ الْبَعِيرُ وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے اور اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔‘‘

  1. احمد بن حنبل، المسند، 2: 381، رقم: 8942، موسسة قرطبة مصر
  2. ابي داود، السنن، 1: 222، رقم: 840
  3. دارمي، السنن، 1: 347، رقم: 1321
  4. نسائي، السنن الکبری، 1: 207، رقم: 1091

قَالَ اَبُوْ سُلَيْمَانَ الْخَطَّابِیُّ حَديْثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ اَثْبَتَُ مِنْ هٰذَا وَقِيْلَ هٰذَا مَنْسُوْخٌ

’’ابو سلیمان خطابی فرماتے ہیں کہ وائل بن حجر کی حدیث اس سے زیادہ صحیح ہے اور اس حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ منسوخ ہے۔‘‘

دونوں احادیث مبارکہ کی اسناد کے بارے میں فنی مباحث کے بعد آخر پر ملا علی القاری فرماتے ہیں:

بقول ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاصل یہ ہے کہ ہمارا مذہب پہلی حدیث پر عمل ہے اور امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب دوسری حدیث پر، اور ہر ایک کی کوئی وجہ ہے اور جب دونوں حدیثیں اصل صحت میں برابر ہیں تو نووی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ سنت کے اعتبار سے کسی ایک مذہب کی ترجیح مجھ پر ظاہر نہیں ہوئی اور اس میں نظر ہے۔ اس لئے کہ اگرچہ ہم اس کا منسوخ ہونا نہ بھی کہیں کیونکہ نسخ پر حدیث ضعیف دالّ ہے۔ لیکن پھر پہلی حدیث اصح ہے۔ لہٰذا وہی مقدم ہوگی اس کے باوجود اکثر علماء اسی کے قائل ہیں۔ نیز نمازی کے لئے سہولت اسی میں ہے۔ اور ہیئت اور شکل میں حسین بھی ہے۔‘‘

علي بن سلطان محمد القاري، مرقاة المفاتيح، 2: 570، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان

لہٰذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ احناف کا عمل پہلی حدیث مبارکہ پر ہے، جس کے مطابق سجدہ کرتے ہوئے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے جائیں پھر ہاتھ اور اٹھتے وقت پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں پھر گھٹنے۔ یہی بہترین طریقہ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی