استحاضہ میں‌ عبادات کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3688

السلام علیکم مفتی صاحب! میرے دو مسئلے ہیں‌ جن سے متعلق میں‌ آپ سے راہنمائی چاہتی ہوں۔ میری عمر 33 سال ہے اور میں‌ ابھی تک غیرشادی شدہ ہوں۔ میرے مثانے میں‌ رسولی ہے جس کی وجہ سے اکثر خون آتا رہتا ہے۔ اس سے پہلے میں‌ آٹھویں‌ دن ماہواری سے فارغ‌ ہوکر غسل کر لیتی تھی، مگر اب کم و پیش 15 دنوں‌ تک خون آتا رہتا ہے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ دنوں تک نہیں‌ رکتا۔ میں‌ اپنا یہ مسئلہ ایک عالمہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ آپ 8 دنوں‌ بعد غسل کر کے نماز وغیرہ شروع کر دیا کرو۔ انہوں نے مزید کہا کہ روز غسل کریں‌ یا ہوسکے تو ہر نماز سے پہلے غسل کریں اور جس کپڑے پر ناپاکی لگی ہو اسے بھی تبدیل کر لیا کرو۔ اس کے بعد سے میں‌ روز غسل کرتی ہوں، لیکن کبھی کبھار مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ تفصلاً راہنمائی کر دیں‌ کہ کیا ہر حال میں‌ روزانہ غسل کرنا ضروری ہے یا ایک دن چھوڑ کر غسل کر لیا جائے۔ کپڑے پر اگر ناپاکی زیادہ لگی ہو تو میں کپڑا تبدیل کر لیتی ہوں‌ لیکن اگر کم ہو تو اسی کے ساتھ نماز ادا کر لیتی ہوں کیونکہ نماز کے دوران بھی خون بہتا رہتا ہے۔ براہِ‌ کرم راہنمائی کر دیں‌ میں‌ بہت پریشان ہوں۔

میرا دوسرا مسئلہ وضو کے قائم نہ رہنے کا ہے، خاص طور پر فجر میں بعض‌ اوقات 5، 6 بار بھی وضو کر لوں‌ تو بھی فرائض‌ ادا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اکثر نماز قضا ہوجاتی ہے۔ اس بار میں‌ بھی آپ کی راہنمائی درکار ہے۔

  • سائل: حنا علیمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 09 اپریل 2016ء

زمرہ: استحاضہ

جواب:

  1. حیض کی کم از کم مدت تین (3) دن اور تین (3) راتیں، جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت دس (10) دن اور دس (10) راتیں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء فرماتے ہیں:

کم سے کم حیض کی مدت تین (3) دن اور تین (3) راتیں ہے، اور زیادہ سے زیادہ دس (10) دن اور دس (10) راتیں ہے۔ اگر کسی کو تین (3) دن اور تین (3) رات سے کم خون آیا تو وہ حیض نہیں بلکہ استخاضہ ہے۔ اسی طرح اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے کسی کو دس (10) دن اور دس (10) رات سے زیادہ خون آیا تو وہ جو دس (10) دن سے زائد ہو گا وہ بھی استحاضہ ہے۔

مرغينانی، الهدايه، 1: 37، کراچی

اپنے سوال میں آپ نے واضح کیا کہ بیماری سے پہلے آپ کو ماہواری (حیض) کا خون آٹھ دنوں تک آتا تھا، لہٰذا عادت اور روٹین کی ماہواری آٹھ ایام کی ہی ہے۔ ان کے مکمل ہونے پر آپ غسل کرنا واجب ہے۔ جس کے بعد نماز، روز کے احکام لاگو ہوں گے اور آپ ہر نماز سے پہلے نیا وضو کر کے نماز ادا کر سکتی ہیں۔ کپڑوں کو خون سے بچانے کے لیے انڈر گارمٹس استعمال کریں، اگر خون لگا ہو تو کپڑے کو دھو لیں یا تبدیل کر لیں۔ نماز کے لیے لباس کا پاک ہونا ضروری ہے۔

  1. ایسا شخص جس کو عذر شرعی ہو، مثلاً بار بار ہوا کا خارج ہونا، مسلسل پیشاب کے قطروں کا نکلنا، خون کا نکلنا وغیرہ، ان کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے نماز کے وقت میں تازہ وضو کر کے نماز ادا کرے گا۔ ایک وضو کے ساتھ ایک سے زائد نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اگر نماز کے وقت کے شروع ہونے سے پہلے وضو کیا پھر اسے ہوا خارج ہوتی رہی یا جو بھی عذر ہو پیش ہوتا رہا اور پھر نماز کا ٹائم ہونے پر نماز پڑھے تو نہیں ہوگی۔ اس لیے ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے اس کے وقت میں تازہ وضو کرے۔

جو شخص سلسل بول یا ریح یا رسنے والے زخم کا مریض ہو، وہ شرعاً معذور ہے ایک وقت کے لیے ایک بار وضو کر لے، وقت کے اندر اندر جس قدر چاہے نماز ادا کرلے، قرآن کریم کو چھوئے، جب تک وقت باقی ہے، اس وجہ سے وضو نہ ٹوٹے گا، ہاں کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ سکتا ہے، جونہی وقت ختم ہوا وضو جاتا رہا۔ نئے وقت نماز کے لیے از سر نو وضو کرے۔ جس طرح نماز ادا کر سکتا ہے۔ تکبیر بھی پڑھ سکتا۔ اور اذان تو کوئی بھی بے وضو شخص بھی دے سکتا ہے۔

(عبدالقيوم خان، مفتی، هزاروی، منهاج الفتاویٰ، 2 : 154-155)

پاکیزہ لباس پہن لینے کے بعد آپ نیا وضو کر کے نماز ادا کر سکتی ہیں، تلاوت کرسکتی ہیں اور اذکار و وظائف کر سکتی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری