کیا داڑھی امامت کے لیے شرط ہے؟


سوال نمبر:3649
کیا داڑھی امامت کے لیے شرط ہے؟

  • سائل: حافظ محمد عثمانمقام: کوٹ مومن
  • تاریخ اشاعت: 08 جون 2015ء

زمرہ: امامت  |  شرائط امامت  |  داڑھی کی شرعی حیثیت

جواب:

امامت کے بارے میں احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ أَتَيْنَا النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً فَظَنَّ أَنَّا اشْتَقْنَا أَهْلَنَا وَسَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَکْنَا فِي أَهْلِنَا فَأَخْبَرْنَاهُ وَکَانَ رَفِيقًا رَحِيمًا فَقَالَ ارْجِعُوا إِلَی أَهْلِيکُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَصَلُّوا کَمَا رَأَيْتُمُونِي اُصَلِّي

’’حضرت سلیمان مالک بن الحویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہم چند ہم عمر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس روز تک آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قیام کیا۔ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ محسوس فرمایا کہ ہم اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے ہمارے اُن گھر والوں کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم چھوڑ آئے تھے۔ چنانچہ ہم نے سب کچھ عرض کردیا۔ چونکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شفیق و رحیم تھے اس لیے فرمایا: اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ۔ انہیں دین سکھاؤ اور اس پر عمل کرنے کا حکم دو اور نماز اس طرح پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا:

وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُوَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ ثُمَّ لِيَوُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ

’’جب نماز کا وقت ہوا کرے تو چاہیے کہ تم میں سے ایک اذان کہہ دیا کرے پھر جو تم میں سب سے بڑا ہو اسے چاہیے کہ تمہارا امام بن جایا کرے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2238، رقم: 5662، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 1: 465، رقم: 674، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. احمد بن حنبل، المسند، 3: 436، رقم: 15636، موسسة قرطبة مصر

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا کَانُوا ثَـلَاثَةً فَلْيَوُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ وَأَحَقُّهُمْ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَوُهُمْ

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تین نمازی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرے اور امام بننے کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جسے قرآن کا زیادہ علم ہو۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 1: 464، رقم: 672
  2. احمد بن حنبل، المسند، 3: 24، رقم: 11206
  3. دارمي، السنن، 1: 318، رقم: 1254، دار الکتاب العربي بيروت
  4. نسائي، السنن الکبری، 1: 280، رقم: 857، دار الکتب العلمية بيروت
  5. ابو يعلی، المسند، 2: 468، رقم: 1291، دار المامون للتراث دمشق
  6. ابن ابي شيبة، المصنف، 1: 302، رقم: 3452، مکتبة الرشد الرياض
  7. ابي عوانة، المسند، 1: 354، رقم: 1270، دار المعرفة بيروت
  8. دار قطني، السنن، 1: 273، رقم: 3، دار المعرفة بيروت

درج ذیل حدیث مبارکہ میں مزید وضاحت پائی جاتی ہے:

عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَوُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَوُهُمْ لِکِتَابِ اﷲِ فَإِنْ کَانُوا فِي الْقِرَائَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ کَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً فَإِنْ کَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وَلَا يَوُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَی تَکْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ قَالَ الْأَشَجُّ فِي رِوَايَتِهِ مَکَانَ سِلْمًا سِنًّا

’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قوم کی امامت وہ شخص کرے جس کو سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو، اگر قرآن مجید کے علم میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرے جس کو حدیث کا سب سے زیادہ علم ہو اور اگر علم حدیث میں سب برابر ہوں تو جس شخص نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سب سے پہلے اسلام لایا ہو اور کوئی شخص کسی مقرر شدہ امام کے ہوتے ہوئے امامت نہ کرائے اور کسی کی مسند پر بلا اجازت نہ بیٹھے۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 1: 465، رقم: 673
  2. احمد بن حنبل، المسند، 4: 118، رقم: 17104
  3. ابي داؤد، السنن، 1: 159، رقم: 582، دار الفکر
  4. ترمذي، السنن، 1: 459، رقم: 235، دار احياء التراث العربي بيروت
  5. ابن ماجه، السنن، 1: 313، رقم: 980، دار الفکر بيروت
  6. نسائي، السنن الکبری، 1: 279، رقم: 855
  7. عبد الرزاق، المصنف، 2: 389، رقم: 3808، المکتب الاسلامي بيروت
  8. ابن ابي شيبة، المصنف، 1: 301، رقم: 3451
  9.  ابي عوانة، المسند، 1: 376، رقم: 1363
  10. طبراني، المعجم الکبير، 17: 218، رقم: 601، مکتبة الزهراء الموصل

معلوم ہوا داڑھی امامت کے لیے شرط نہیں ہے لیکن داڑھی مونڈے امام کو مقتدی برضا ورغبت پسند نہیں کریں گے کیونکہ مطلقاً داڑھی رکھنا شعائر اسلام میں سے ہے اور نہ رکھنا روحِ اسلام کے خلاف ہے تاہم کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ قبضہ سے کم داڑھی والے امام کے پیچھے بلا کراہت نماز پڑھنا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری