لڑکی کی مرضی کے خلاف منعقد ہونے والے جبری نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:3616

محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

الحمدللّٰہ رب العالمین میں سنی العقیدہ اور حسینی سادات کے معزز گھرانے کی فرد ہوں، اللہ تعالی کی عطا سے دین دار اور پاک دامن اور تعلیم یافتہ ہوں ۔ میرے محترم والد صاحب عزت و شہرت رکھنے والے نیک شخص تھے اور اپنے بیٹوں سے زیادہ اپنی بیٹیوں کی دل جوئی کیا کرتے تھے اور اپنے بیٹوں کو بھی تاکید کیا کرتےتھےکہ بہنوں کا ہر طرح خیال رکھیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد مجھے اپنے بھائیوں سے وہ شفقت و مہربانی نہیں مل سکی جو میرے محترم والد صاحب سے مجھے حاصل تھی۔ ان سے محرومی مجھے آج بھی افسردہ رکھتی ہے۔

میرے سگے چچا نے میرے محترم والد کی وفات کے بعد مجھ سے دس برس چھوٹے اپنے "بیمار" بیٹے کے لیے میرا رشتہ بہت زیادہ اصرار سے لیا اور میرے لیے آنے والے ہر رشتے کو ٹھکرانے کا شدید دباؤ ڈالا۔ان کے اس فرزند نے یہ زیادتی تک کی کہ میری کردار کشی کی سازش کی تاکہ میری بدنامی ہو اور کہیں اور میرا رشتہ نہ ہوسکے۔ میرے بھائیوں پر میرے نکاح سے قبل اس کی یہ سازش ظاہر بھی ہوگئی علاوہ ازیں میرے مسلسل اور بار بار انکار کے باوجود میرے اسی چچا زاد سے مجھے بیاہ دیاگیا۔ جب کہ میں نے سنا ہوا تھا کہ ’لڑکی کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی اس کا نکاح نہیں کرسکتا‘۔ شادی ہو جانے کے بعد مجھ پر ظاہر ہوا کہ میرا شوہر دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ " نامرد " بھی ہے، بدزبانی اور گالی گلوچ اس کی عادت ہے، کوئی خرچ نہ دینا اور مجھ سے واش روم سمیت گھر بھر کی صفائی اور باندی کی طرح تمام کام کروانا، سسرال کا بہت منفی رویہ، طعنے، بد گوئی وغیرہ مجھے بہت ذلت کا احساس کرواتا ہے۔ میرے سسر باربار یہی کہتے ہیں کہ ’’تم ابھی سے گھبرا رہی ہو، اسی طرح کام کاج کرتی رہو، ہم نے تو اپنا بڑھاپا تمہارے ساتھ گزارنا ہے، تم نے ہی ہماری خدمت کرنی ہے‘‘ اور شوہر فرماتے ہیں کہ وہ مجھے نماز پڑھنے کے لیے نہیں کام کروانے کے لیے لائے ہیں۔ کام سے میں نہیں گھبراتی مگر ذلت برداشت نہیں ہوتی۔

میرے بھائی بہن سب تفریح کےلیےکہیں جارہے تھے، انہوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا، میں نے ان کےساتھ جانے کی اپنے شوہر سے اجازت چاہی تو اس نے بہت بری طرح مجھے مارا پیٹا اور فحش گالیاں دیں۔ میں اپنے محترم والد مرحوم کی عزت کی خاطر چپ چاپ صبر کرتے ہوئےسب کچھ سہہ رہی تھی لیکن اس شدید بدسلوکی پر چپ نہ رہ سکی اور اپنے بھائیوں کو اس سانحے سے آگاہ کردیا ۔ میرے بھائیوں نے ’’تمام حقائق‘‘ جان کر بھی مجھے ذلت و اذیت سے نجات نہیں دلائی۔ دوسرے لوگ اور ملازم تک میرے ساتھ بدسلوکی دیکھتے رہے۔ مجھے شدید کرب رہا کہ سبھی کو ’’حق‘‘ حاصل ہے کہ وہ مزے سے بسر کریں، مجھے نہ جانے کیوں کوئی ’’حق‘‘ حاصل نہیں اور مجھے ہی ذلت و اذیت میں کیوں رکھا جارہاہے؟

میری والدہ محترمہ میرا درد سمجھتی ہیں لیکن شاید اپنے بیٹوں کے سامنے بے بس ہیں۔ میرے بھائی بہن مجھ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ میں اسی طرح بسر کرتی رہوں اور وہ اپنی آسودگی کےلیے مجھے ہر طرح قربانی دیتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ میرے رونے بلکنے کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا اور اب تو انہوں نے میرے شوہر اور سسرال کو یہ تک کہہ دیاہےکہ ’’جو چاہیں کریں، جیسے چاہیں رکھیں، ماریں، پیٹیں، ہمارے گھر کے دروازے اس کے لیے بند ہیں، ہم سے اب اس کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘ واضح رہے کہ کچھ شاطر اور حاسد قرابت دار میرے بھائیوں کو میرے خلاف کرنے کے لیے میرے بارے میں بہتان تراشتے رہتے ہیں تاکہ میرے بھائی مجھ سے بدگمان ہوں اور مجھ سے ہم دردی نہ رکھیں۔

اس مختصر رُوداد کے بعد جانناچاہتی ہوں کہ:

  1. میرے چچا صاحب کا اپنے بیمار نامرد بیٹے کے لیے حقیقت چھپا کر اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کا زبردستی رشتہ لینا دھوکا اور ظلم ہے یا نہیں ؟ ان کا یہی ارادہ ہوگا کہ سگی بھتیجی پر دباؤ ڈال کر خاموش رکھ سکیں گے، کوئی اور لڑکی انہیں بے نقاب کیے بغیر نہیں رہے گی اور یہ سب کچھ برداشت نہیں کرے گی۔
  2. میری رضامندی نہ ہوتے ہوئے میرے بھائیوں کا زبردستی مجھے شادی پر مجبور کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟ انھوں نے جان بوجھ کر میری زندگی خراب کرنی چاہی اور مجھے ناروا بوجھ یا فالتو شے سمجھ کر خود سے دُور کیا۔
  3. اپنی خاندانی ساکھ یا اپنی راحت و آسودگی کی خاطر بھائیوں کا صرف مجھے اس ذلت و اذیت میں رہنے کا شدید اور مسلسل دباؤ ڈالنااور میرے سسرال کو مجھ پر ہر طرح زیادتی روا رکھنے کا کہنا اور میری والدہ محترمہ کے ہوتے ہوئے مجھ پر میرے محترم والد کے گھر کے دروازے بند کرنا اور مجھ سے لاتعلقی کا اعلان شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیا بھائیوں کو شرعا یہ اختیار ہے؟ قطع رحمی ہی نہیں وہ شدید زیادتی بھی کر رہے ہیں۔
  4. شوہر کی دیگر بیماریوں ، نامردی ، بدزبانی اور کوئی خرچ نہ دینے کے باوجود کیا مجھے اسی طرح ذلت و اذیت ہی میں بسر کرنی چاہیے یا شریعت مجھے اس سے نجات کا اختیار دیتی ہے؟
  5. کسی پاک دامن باحیا اور شریف خاتون پر بغیر کسی بھی یقینی ثبوت کے بہتان باندھنا اور اس کے بھائی بہنوں کو اس کے خلاف کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟

عزتِ نفس کی پامالی اور اس کرب و اذیت کے باوجود میں شریعت و سنّت ہی کی رہنمائی اور ہدایت کے مطابق اپنا حق جاننا اور حاصل کرنا چاہتی ہوں اور شریعت و سنّت کے مطابق ہی بسر کرنا چاہتی ہوں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس رُوداد کی تمام جزئیات کو سامنے رکھ کر تفصیلی جواب سے نوازیں ۔ اللہ تعالٰی آپ کو اجر عطا فرمائے۔

  • سائل: ایس۔اے۔ ایس۔ شاہمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 22 مئی 2015ء

زمرہ: نکاح

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. اگر باقی تمام مسائل ایک طرف رکھ دیے جائیں، صرف آپ کے شوہر کے نامرد ہونے کی بنیاد پر ہی آپ کا بذریعہ عدالت تنسیخِ نکاح کروانا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر وہ نامرد ہے تو آپ کتنی دیر تک انتظار کریں گی؟ ایسی صورتِ حال میں انسان کے بھٹکنے اور گناہوں کے رستے پر جانے کے خدشات کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے کسی گناہ میں پڑنے کے خطرے سے آزاد ہونے کے لیے عدالت کے ذریعے تنسیخِ نکاح کروا لیں، اور عدالت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ آپ کو جلد سے جلد سے مردہ رشتے سے آزاد کرے۔

جن لوگوں کو معلوم تھا کہ لڑکا نامرد ہے اس کے باوجود انہوں نے اس کا نکاح آپ سے کیا، ان کا یہ فعل حرام ہے۔ کیونکہ نامرد کے لیے نکاح کرنا حرام ہے۔ انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے آپ پر ظلم کیا، اور اب مزید ظلم ڈھا رہے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے باغی اور حدود اللہ کو توڑنے والے ہیں۔ انہوں نے جس طرح آپ کو دھوکہ دیا ہے، آپ کا انہیں بےنقاب کریں اور ان کی دھوکہ دہی کو بااثر اور سمجھدار رشتہ داروں کے سامنے لائیں، تاکہ وہ اس ظالمانہ رشتے کے خاتمے میں آپ کی مدد کریں۔ آپ کی والدہ اور بھائیوں کا فریضہ ہے کہ آپ کی مدد کریں اور آپ کو گناہ پر مجبور نہ کریں۔

بعض معاشرتی مسائل قرآن و سنت اور ائمہ سلف نے پوری شرح و بسط سے بیان کردیئے ہیں مگر امت کی بدنصیبی کہ عوام و خواص الا ماشاءاللہ ان کے ثمرات سے مستفید نہیں ہوسکے۔ ان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مرد چونکہ عورت پر حاکم ہے اور صدیوں سے حاکم اور ظالم کا چولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا عورت صدیوں سے مرد کے مظالم کا شکار ہے۔ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی حرماں نصیبی شروع ہوجاتی ہے۔ قدیم جہالت اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی معاشرہ میں براجمان ہے، اس کی پیدائش پر ناک بھنویں چڑھانے کی ظالمانہ رسم آج بھی قائم ہے، جس کو قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُه مُسْوَدًّا وَّهُوَ کَظِيْمٌo يَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِهط اَيُمْسِکُه عَلَی هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّه فِی التُّرَابِ ط اَلَا سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَo

’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری سنائی جائے دن بھر اس کا چہرہ سیاہ رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے۔لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوشخبری کی بُرائی کے سبب ، کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے؟ وہ بہت ہی بُرا حکم لگاتے ہیں‘‘۔

النحل ، 16: 58 ، 59

بیٹے کی پیدائش پر خوشی کے مظاہرے اور بچی کی پیدائش پر رنج و الم بلکہ تعزیت کے سے انداز؟ اچھا اﷲ کی مرضی، گویا ہوا تو بُرا ہے مگر اﷲ کی مرضی۔۔۔ نَعُوْذُ بِااﷲ۔ ابتداء سے انتہاء تک بچی سے امتیازی سلوک، بیاہ شادی اور تعلیم و تربیت میں نمایاں فرق، وراثت سے بیٹی، بہن، بیوی، ماں کی محرومی۔ الغرض ہر پہلو سے اس کی تحقیر و تذلیل، اس کا مقدر اور مرد کا حق سمجھا جاتا ہے۔ دیگر معاملات میں بھی اس بےزبان کی سننے والا کوئی نہیں۔ ہر سو ظلم کی آگ لگی ہوئی ہے جسے بجھا نے والا کوئی نہیں۔ مذہبی طبقات نے اس پر علم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ جاگیرداروں، نوابوں، زمینداروں اور پیروں نے بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کرنے کے لئے مختلف شیطانی ہتھکنڈے اپنا رکھے ہیں۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر ظلم کرتے۔ نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قید نکاح سے آزاد کرتے۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ ان کو اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں؟ جواب دیتے ہم نے طلاق دے دی ہے۔ جب پوچھا جاتا پھر ان کو دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے؟ جواب ہوتا ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا۔ لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں، نہ رکھیں گے نہ چھوڑیں گے۔ یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔ قرآن کریم نے اس کا خاتمہ کیا کہ طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک یادو بار واضح الفاظ میں طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے یا تو رجوع کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ نکاح ختم ہوجائے اور عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو اب رجوع نہیں کرسکتا جب تک وہ عورت کسی اور سے شادی و قربت نہ کرلے۔

جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے۔ شوہر ظلم کرے نہ بیوی بناکر رکھے نہ طلاق دے پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے وہ حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ ہے۔ چنانچہ مظلوم عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے اور خاوند عدل و انصاف کا راستہ اپنائے نہ عورت کو طلاق دے تو قاضی یعنی عدالت فوراً طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف۔

دور جاہلیت میں عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل ہے :

کان الرجل في الجاهلية يطلق امرأته ثم يراجعها قبل أن تنقضي عدتها ولو طلقها ألف مرة کانت القدرة علی المراجعة ثابتة له فجاء ت امرأة اِلی عائشة رضي اﷲ عنها فشکت أن زوجها يطلقها ويراجعها يضارها بذلک فذکرت عائشة رضي اﷲ عنها ذلک لرسول اﷲ فنزل قوله تعالی (اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن)

’’دور جاہلیت میں خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیتا، چاہے ہزار بار طلاق دیتا۔ اسے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوتا۔ ایک عورت نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت کی کہ اس کا خاوند اسے طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرکے اسے ایذاء دیتا ہے سیدہ سلام اﷲ علیہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کردیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (الطلاق مرتٰن: یہ طلاق جس کے بعد رجوع ہوسکتا ہے دوبار تک ہے)‘‘۔

الرازی ، التفسير الکبير، 6: 82، دار الکتب العلمية بيروت

قرآن و سنت کی رو سے کوئی انسان دوسری کسی بھی مخلوق کو ایذاء دینے کا مُجاز نہیں۔ نہ مرد عورت کو، نہ عورت مرد کو، نہ رکھنا نہ چھوڑنا ظلم ہے، جس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کیا دنیا کے کسی نظریہ و دھرم میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا خاتمہ حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لہٰذا قاضی یا عدالت کے پاس جیسے ہر مظلوم داد رسی کے لئے رجوع کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایسی مظلومہ بھی عدالت کے ذریعہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کرواسکتی ہے چونکہ عدالتی فیصلہ حکومتی فیصلہ ہے۔ جس پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بس عدالت کا یہ کام ہے کہ جو عورت داد رسی کے لئے اس کی طرف رجوع کرے یہ تمام حالات و کوائف کی چھان پھٹک کرے۔ منصفانہ وغیر جانبدارانہ تحقیقات سے خاوند کا ظلم ثابت ہو، یا وہ بیوی کے حقوق پورے نہ کرے یا نہ کرسکے اور قاضی عادل کو اطمینان ہو کہ خاوند، بیوی کے حقوق پامال کررہا ہے، عدالت فوراً اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے میاں بیوی میں تنسیخ نکاح کردے۔ یہ عدالتی تنسیخ شرعاً جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ ظلم ختم ہو۔ یہ تنسیخ عدالت طلاق بائن ہوگی۔ نکاح فوراً ٹوٹ جائے گا۔

اگر خاوند نامرد ہو، بیوی بذریعہ عدالت اس سے آزادی کا مطالبہ کرے، حاکم اسے ایک سال کی مہلت دے۔ اگر سال میں قربت کے قابل ہوگیا تو نکاح برقرار رہے گا۔ ورنہ عدالت عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے۔ یہی روایت ہے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے۔ یہی فتویٰ ہے دنیا بھر کے فقہائے کرام کا جیسے ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب، امام مالک اور ان کے اصحاب، امام احمد اور ان کے اصحاب کا بھی یہی حکم ہے۔ جادو زدہ اور نامرد کا۔

فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساک بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان فإذا امتنع ، ناب القاضي منابه ففرق بينها ولابد من طلبها لأن التفريق حقها وتلک الفرقة تطليقة بائنة لأن الفعل أضيف إلی فعل الزوج فکأنه طلقها بنفسه ... لأن المقصود وهو دفع الظلم عنها لا يحصل إلابها و لولم تکن بائنة تعود معلقة بالمراجعة ولها کمال مهرها إن کان خلابها.

’’جب سال بھر مدت گزر جائے اور مرد جماع کے قابل نہ ہو تو واضح ہوگیا کہ یہ عاجزی اصلی آفت کی وجہ سے ہے لہٰذا امساک بالمعروف ، بھلائی کے ساتھ بیوی کو روک لینا۔ نہ رہا اب خاوند پر لازم ہے کہ اچھے طریقہ سے اسے آزاد کردے۔ جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند) کا قائمقام ہو کر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے اور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔گویا یہ طلاق خاوند نے خود دی ہے۔۔۔ کیونکہ اصل مقصد یعنی ظلم کا خاتمہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اگر یہ تفریق طلاق بائنہ نہ ہوئی تو رجوع کی صورت میں بیچاری پھر لٹکنے لگے گی۔ اگر خاوند نے اس سے خلوت کی ہے تو اسے مکمل حق مہر بھی ملے گا‘‘۔

مرغيناني ، الهداية، 2: 26، المکتبة الإسلامية

فاذا امتنع کان ظالما فناب القاضی عنه فيه فيضاف فعله اليه

’’جب خاوند طلاق نہ دے تو ظالم ہے لہٰذا قاضی اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا‘‘۔

ابن همام، شرح فتح القدير، 4: 300، دار الفکر، بيروت

إن اختارت الفرقة أمر القاضی أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبي فرق بينهما .... والفرقة لطليقة بائنة .... ولها المهر کاملا وعليها العدة بالاجماع إن کان الزوج قد خلابها وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف ، المهرإن کان مسمي ، المتعة إن لم يکن مسمّی.

’’اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔ اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور بالاتفاق اس پر عدت لازم ہے اگر خاوند نے اس سے خلوت صحیحہ کی ہے اور اگر خلوت صحیحہ و قربت نہیں کی تو عورت پر عدت نہیں اور اگر مہر مقرر تھا تو اس کا نصف دینا ہوگا اور مہر مقرر نہ تھا تو حسب توفیق کپڑوں کا جوڑا اور تحائف وغیرہ‘‘۔

الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند ، الفتاوی الهندية ، 1: 524 ، دار الفکر

’’یہی حکم ہے نامرد کا۔ مقطوع الذکر کا، خصی کا، قصیر الذکر کا، ان سب کی بیویوں کو اگر وہ عدالت میں اپنا کیس پیش کریں اور عدالت کو سچا ہونے کا یقین ہوجائے تو ایسے نالائق شوہروں سے بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حق ہے اور یہ تنسیخ طلاق بائن ہوگی‘‘۔

الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند ، الفتاوی الهندية ، 1: 524 ، دار الفکر

ان تمام صورتوں کے بارے میں علامہ شامی فرماتے ہیں :

فالضرر الحاصل للمرأة به مساولضرر المجبوب فلها طلب التفريق

’’اس سے عورت کو پہنچنے والی تکلیف مجبوب (مقطوع الذکر) کی تکلیف کے برابر ہے اس لئے عورت کو بذریعہ عدالت تفریق کا حق ہے‘‘۔

ابن عابدين شامي ، ردالمحتار ، 3: 495 ، دار الفکر للطباعة والنشر بیروت

  1. اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر بیوی حقوق زوجیت سے خاوند کو محروم کرے۔ تو خاوند کے پاس حق طلاق ہے۔ اور دیگر حاکمانہ حقوق ہیں۔ جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر حق طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر خاوند بیوی کے حقوق پامال کرے نان نفقہ نہ دے، حقوق زوجیت سے اسے محروم کرے۔ نہ امساک بمعروف اور تسریح باحسان پر عمل کرے اور ساری عمر نہ بیوی بنا کر رکھنے نہ آزاد کرے تو بیوی پر ظلم ہوا۔ قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے۔ نہ مظلوم لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ نہ تم ظالم بنو نہ تم پر ظلم ہو۔ اس لیے عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق و فرائض ہیں ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے مرد پھر ہی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔

اگر آپ کے نکاح کے وقت آزادانہ ایجاب و قبول نہیں ہوا، بلکہ زبردستی آپ سے قبول کروایا گیا تو یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس صورت میں وہ آپ کا خاوند نہیں ہے۔ اس زبردستی کے نکاح میں جتنے لوگ شامل تھے وہ سب مجرم اور سزا کے مستحق ہیں، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی شریعت اور ملکی قوانین کا مذاق اڑایا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ نے اپنی رضامندی سے نکاح تو قبول کر لیا مگر بعد میں لڑکا نامرد ثابت ہوا تو آپ کے لیے اس سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسلام کے طریق نکاح کو جاننے کے لیے  ملاحظہ کیجیے: کیا لڑکا اور لڑکی شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں؟

  1. اگر آپ کے رشتہ دار، بھائی اور والدہ محترمہ اس دلدل سے نکلنے میں آپ کی مدد نہیں کرتے تو وہ سب بھی گنہگار ہوں گے۔ ایک طرف انہوں نے ایک نامرد سے نکاح کر کے آپ پر ظلم کیا اور دوسری طرف وہ آپ کو گناہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان کا مذہبی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے کہ عدالت سے تنسیخ کروا کر آپ کا نکاح کسی اور جگہ کروائیں۔
  2. شریعت نے آپ کو معیاری زندگی گزارنے کا پورا حق دیا ہے۔ شریعت ایسے نامرد کے ساتھ رہنے پر آپ کو مجبور نہیں کرتی۔ اس کی تمام وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔
  3. کسی پر بہتان باندھنا حرام اور اللہ و اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کا عمل ہے۔ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے بارگاہ سے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

ہم نے جو احکامِ شرعی بیان کیے ہیں آپ اپنی والدہ، بہن بھائیوں اور دیگر مخلص رشتہ داروں کو ان سے آگاہ کریں تاکہ وہ بطور انسان اور بطور مسلمان آپ کی زندگی کو مزید اذیت ناک ہونے سے بچائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری یہ تحریر دکھانے کے بعد آپ کی مدد ضرور کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی