کیا نکاح سے پہلے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟


سوال نمبر:3435

میں کچھ عرصہ ایک آن لائن قرآن اکیڈمی میں پڑھاتا رہاہوں۔ انہوں نے سب سے ایک فارم پر دستخط کروائے تھے، اس فارم کی ایک شق یہ تھی ’’اس ادارے کے کسی بھی طالبعلم کے ساتھ کوئی بھی ایسا رابطہ جو اس ادارے کے اصول و قوانین کے خلاف اور انتظامیہ سے مخفی ہو مثلاً طالبعلم سے رابطہ نمبر لینا، ای میل، آئی ڈی وغیرہ لینا دینا، کسی طالبعلم کو اپنی پرسنل سکائپ آئی ڈی میں شامل کرنا کسی طالب علم سے ریفرنس لینا یا دینے میں سے کوئی کام نہیں کروں گا۔ اگر میں نے ایسا کیا تو میری بیوی پر طلاق پڑے گی چاہے نکاح خود کروں یا نکاح فضولی کی صورت ہو یا کسی کو نکاح کا وکیل بنا کر نکاح کیا تو میری بیوی کو تین طلاق، خواہ وہ میری موجودہ بیوی ہو یا آئندہ ہونے والی جب بھی نکاح کروں تو میری بیوی کو تین طلاقیں‘‘ علماء اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کیا نکاح سے پہلے اس معاہدے کے تحت طلاق واقع ہو جائے گی؟ اگر کسی نے یہ معاہدہ کیا ہے توکیا وہ ساری زندگی شادی نہیں کر سکتا؟ اگر شادی کرے گا تو اس کے لئے کیا کفارہ ادا کرنا ہو گا؟ اور جس بندے نے یہ معاہدہ لکھا ہے اسلام اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ حفاظ کرام مجبوری کے تحت یہ جاب کرتے ہیں بعد میں ناسمجھی کی وجہ سے معاہدے کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے اس کا ذمہ دار کے لیے کیا حد ہے؟ برائے مہربانی جلد از جلد اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں میرے ایک جاننے والے کی شادی ہے تو وہ اب انکار کر رہا ہے شادی سے کیونکہ اس نے یہ معاہدہ دستخط کیا ہوا ہے۔

  • سائل: یاسر علیمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 07 جنوری 2015ء

زمرہ: طلاق  |  تعلیق طلاق

جواب:

بااثر اہلِ علاقہ اور متعلقہ افراد کا اخلاقی، مذہبی اور قانونی فریضہ ہے کہ مذکورہ اکیڈمی کی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر اسے متعلقہ فارم کی نظرِثانی پر مجبور کریں، اور اس میں سے بیوی کی طلاق سے متعلق عبارت کو حذف کروائیں۔ یہ شرط ظالمانہ، جابرانہ اور استحصالی سوچ پر مبنی ہونے کے ساتھ غیر شرعی اور غیر اخلاقی بھی ہے۔

بصورتِ مسئلہ اگر کوئی شخص مذکورہ فارم کی عبارت کو پڑھے بغیر اس پر دستحط کر دے یا اکیڈمی کی انتظامیہ مجبوراً اس سے دستحط لے تو اس کو معافی ہے۔ خدانخواستہ کوئی غلطی سرزد ہونے کی صورت میں اس کی موجودہ بیوی یا آئندہ ہونے والی بیوی کو طلاق نہیں ہوگی۔

اس کے برعکس اگر کسی شخص نے فارم اور اس کی شرائط کو تفصیلاً پڑھا، عبارت کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھا اور پھر ان شرائط کو مان کر دستخط کیے، تو خدانخواستہ غلطی کی صورت میں اس کی موجودہ بیوی یا آئندہ ہونے والی بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔ کیونکہ عبارت میں واضح طور پر درج ہے کہ ’’خواہ وہ میری موجودہ بیوی ہو یا آئندہ ہونے والی، جب بھی نکاح کروں گا تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘ یعنی طلاق اسی لمحے واقع ہوجائے گی جب نکاح ہوگا۔ اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد کہے کہ ’’میں جب بھی نکاح کروں تو میری بیوی کو طلاق‘‘ یہ طلاق اس وقت تو واقع نہیں ہوتی مگر جس لمحے وہ نکاح کرتا ہے اسی کے ساتھ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس نے  نکاح کرنے کی شرط رکھی ہے، تو جب شرط پوری ہو گی تو مشروط پورا ہو جائے گا۔ فقہائے احناف فرماتے ہیں:

و اذا اضافه الیٰ شرط وقع عقیب الشرط

الشیخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاویٰ الهندیه، :420، دارالفکر۔

جب خاوند نے طلاق کو شرط کے ساتھ مشروط کیا، تو جب شرط پائی جائے گی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔

 اس کا نہ تو کفارہ ہے اور نہ ہی کوئی اور راستہ۔ گویا یہ لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اگر کسی نے ناسمجھی میں یا لاشعوری طور پر کوئی غلطی کرلی تو وہ جب بھی نکاح کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔ جس بندے نے یہ معاہدہ لکھا ہے وہ گناہگار ہے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی