غصّے کی کون سی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی؟


سوال نمبر:3238
السلام علیکم! غصّے کی کون سی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے؟

  • سائل: مختیار حسینمقام: لیہ
  • تاریخ اشاعت: 06 نومبر 2014ء

زمرہ: طلاق

جواب:

غصہ کی بعض حالتوں میں طلاق ہو یا کوئی اور معاملہ، واقع نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیتا ہے، اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ فقہائے کرام غصے کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں:

  1. احدها ان يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده و هذا لااشکال فيه

  2. الثانی ان يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لا يريده فهذا لاريب انه لاينفذ شئی من اقواله

  3. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والادلة تدل علی عدم نفوذ اقواله.

پہلی یہ کہ ابتدائی حالت ہو ، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کام کے کرنے کا ارادہ ہے۔اس میں اشکال نہیں ہے کہ اس حالت میں طلاق ہو جائے گی۔

دوسری حالت یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے۔ انسان کو پتہ نہ چلے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کرنے کا ارادہ ہے۔اس صورت میں بلاشبہ اس کا کوئی قول یا کلام نافذ نہیں ہو گا۔

تیسرا درجہ درج بالا دونوں حالتوں کی ابتدائی حالت ہے۔ اس میں انسان پاگل کی طرح نہیں ہوتا۔ یہ حالت قابل غور ہے۔ اس حالت میں دلائل و قرائن کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ دلیل یا قرینہ مل جانے کی صورت میں اس شخص کی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

ابن عابدين، ردالمحتار، 3: 244، دارلفکر للطباعة و النشر، بيروت

علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید علامہ ابن قیم جوزیہ اپنی کتاب زاد المعاد فی ھدی خیر العباد میں لکھتے ہیں:

مايزيل العقل فلايشعر صاحبه بماقال وهذا لايقع طلاقه بلانزاع.

مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصور مايقول و قصده فهذا يقع طلاقه.

ان يستحکم ويشتدبه فلايزيل عقله بالکلية و لکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی مافرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوي متجه.

ایک یہ کہ غصہ اتنازیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیاکہا۔اس صورت میں بلااختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔

دوسراغصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جوکہہ رہا ہوتاہے وہ پوری طرح سمجھتابھی ہے۔اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔

تیسرادرمیانہ درجہ کاغصہ ہے جوسخت ہوتاہے اوروہ انسان کی عقل پرغالب آجاتاہے مگرانسانی عقل قائم رہتی ہے، لیکن دل کی نیت وارادہ کے بغیرمحض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ پرقابونہیں پا رہا ہوتا۔ پھرطلاق سرزد ہونے  کے  بعد نادم ہوتا ہے اور افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غورطلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔

ابن قيم، زادالمعاد، 5: 215، موسسة الرسالة، مکتبةالمنار، بيروت

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں:

الجنون فنون

جنون کئی قسم کاہوتا ہے۔

ابن عابدين، ردالمحتار، 3: 244، دارلفکر للطباعة و النشر، بيروت

معلوم ہوا جو شخص شدید غصہ میں ہو وہ ایک طرح کا وقتی مریض ہوتاہے۔ قرآن کریم میں مریض کے بارے میں حکم  ہے:

ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ.

’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔

النور، 24: 61

مفسرین کرام اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

فالحرج مرفوع عنهم فی هذا

’’جومریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج وتنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔

  1. عبدالرحمن بن محمد، تفسيرالثعالبی، 3: 127، موسسه الاعلمی للمطبوعات، بيروت

  2. قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12: 313، دارالشعب، القاهره

  3. ابومحمد عبدالحق بن غالب عطية الاندلسی، المحرر الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 4: 195، دارالکتب العلمية، لبنان

مزیدعلامہ قرطبی بیان کرتے ہیں:

فبينت هذه الاٰية انّه لاحرج علی المعذورين.

اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

قرطبی، جامع لاحکام القران، 12: 313، دارالشعب، القاهره

دوسری آیت کریمہ ہے:

وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ

’’اس (اﷲتعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘

الحج، 22: 78

امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ابن عباس رضی اﷲعنہمانے فرمایا:

’’حرج کا مطلب ہے تنگی۔‘‘

ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں:

ويُحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی.

’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جاسکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر ہے‘‘

 آیت کریمہ کامطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔

جصاصّ، احکام القران، 3: 251، طبع لاهور

امام رازی فرماتے ہیں:

الضيق

’’اس سے مراد تنگی ہے‘‘

امام رازی، تفسيرالکبير، 23: 73، طبع تهران

امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:

ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم

’’تنگی، ایسی تکلیف ہے جس کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘

  1. بيضاوی، انوارالتنزيل و اسرار التاويل، 2:50، طبع مصر

  2. محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، تهران، ايران

حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم.

’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا، مجنون یا پاگل جس کی عقل پر جنون یا پاگل پن غالب ہو، سونے والا جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘

  1. حاکم، المستدرک، 2: 68، رقم 2351، دارالکتب العلمیة، بیروت

  2. ابن حبان، الصحيح، 1: 356، رقم 143، موسسة الرسالة، بيروت

  3. ابن خزيمة، الصحيح، 4: 348، رقم 3048، المکتب الاسلامي، بيروت

  4. نسائي، السنن الکبري، 4: 323، رقم 7343، دارالکتب العلمية، بيروت

  5. ابوداود، السنن، 4: 140، رقم 4401، دارالفکر

  6. دارقطني، السنن، 3: 138، رقم 173، دارالمعرفة، بيروت

  7. هندي، کنزالعمال، 4: 97، رقم 10309، دار الکتب العلمية، بيروت

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الغلام حتی يحتلم و عن المجنون حتی يفيق

’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا، سونے والاجب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنون جب تک سمجھدارنہ ہوجائے۔‘‘

  1. ابن حبان، الصحيح، 1: 355، رقم 142، موسسة الرسالة، بيروت

  2. ابوداود، السنن، 4: 141، رقم 4403، دارالفکر

  3. بيهقی، السنن الکبری، 3: 83، رقم 4868، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

امام نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا کی روایت کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیاہے:

رفع القلم عن ثلاثةعن النائم حتی يستيقظ وعن الصغير حتی يکبر و عن المجنون حتی يعقل اويفيق.

’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا، سونے والے پر جب تک وہ بیدار نہ ہوجائے، چھوٹے (بچہ) پر جب تک بڑا (بالغ) نہ ہو جائے اور مجنون پر جب تک عقل مند یعنی سمجھدار نہ ہوجائے۔‘‘

  1. نسائی، السنن الکبری، 4: 323، رقم 7343، دار الکتب العلمیة، بیروت

  2. ابن ماجه، السنن، 1: 658، رقم 2041، دارالفکر، بیروت

حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا:

لاطلاق ولاعتاق فی اغلاق

’’شدید غصہ میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ ہی غلام کی آزادی‘‘

  1. حاکم، المستدرک، 2: 261، رقم 2802، دارالکتب العلمية، بيروت

  2. ابوداود، السنن، 2: 258، رقم 2193، دارالفکر

  3. ابن ماجه، السنن، 1: 660، رقم 2049، دارالفکر، بيروت

  4. بيهقی، السنن، 7: 357، رقم 14874، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

  5. دارقطنی، السنن، 4: 36، رقم 99، دارالمعرفة، بيروت

  6. ابن ابی شيبه، المصنف، 4: 73، رقم 18038، مکتبة الرشد الرياض،

  7. ابويعلی، المسند، 7: 421،رقم 4444، دار المامون للتراث، دمشق

  8. احمد بن حنبل، المسند، 6: 276، رقم 26403، موسسة قرطبه، مصر

  9. شاميين، المسند، 1: 287، رقم 500، موسسة الرسالة، بيروت

علامہ عینی ’’عمدۃ القاری‘‘ میں اور عبد اﷲ بن یوسف الزیلعی’’نصب الرایہ شرح ھدایہ‘‘میں لکھتے ہیں:

قال ابوداود الغلاق اظنّه الغضب

امام ابو داؤد نے کہا ہے ’’میرے خیال میں اغلاق کا معنی غصہ ہے۔‘‘

عيني، عمدةالقاري، 20: 250، دارحياء التراث العربي، بيروت

عبداﷲ بن يوسف، نصب الراية، 3: 223، دارالحديث، مصر

محمدبن ابی بکر ایوب الزرعی المعروف بابن القیم الجوزیہ الدمشقی متوفی 157ھ بھی اغلاق کامعنی’’غصہ‘‘ہی بیان کرتے ہیں۔

محمد بن ابی بکر، زادالمعاد، 5: 214، موسسة الرسالة مکتبة المنار، بيروت

ایک اورحدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کل طلاق جائز الا طلاق المعتو.

’’ہرطلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، 4: 72، رقم 17914، مکتبة الرشد الرياض

عبدالرزاق، المصنف، 6: 409، رقم 11415، المکتب الاسلامي، بيروت

علی بن جعد، المسند، 1: 120، رقم 742، موسسة نادر، بيروت

کل طلاق جائز الا طلاق المعتوه و المغلوب علی عقله.

’’ہرطلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پر (غصہ یا پاگل پن کا) غالب ہو۔‘‘

  1. ترمذی، السنن، 3: 496، رقم 1191، داراحياء التراث العربي، بيروت

  2. هندي،کنزالعمال، 9: 27771، دار الکتب العلمية، بيروت

فقہائے کرام کے نزدیک شدیدغصہ میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے:

اراد بالجنون من فی عقله اختلال، فيدخل المعتوه و احسن الاقوال في الفرق بينهما ان المعتوه هو القليل الفهم المختلط الکلام الفاسد التدبير لکن لايضرب و لايشتم بخلاف الجنون و يدخل المبرسم و المغمي عليه و المدهوش.

 جنون (پاگل پن) کامطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی وخلل  آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کامطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو۔ لیکن معتوہ (مغلوب الغضب) نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنوں (پاگل) کے۔ اس میں سرسام والا، بیہوش اورمدہوش داخل ہیں۔

ابن نجيم الحنفي، البحر الرائق، 3: 268، دارالمعرفة، بيروت

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه اناطة الحکم بغلبة الخلل في اقواله وافعاله الخارجة عن عادته، وکذا يقال فيمن اختلّ عقله لکبر اولمريض اولمصيبة فاجاته فما دام في حال غلبة الخلل في الاقوال والافعال لاتعتبر اقواله و ان کان يعلمها و يريدها لان هذه المعرفة و الارادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراک صحيح کما لاتعتبر من الصبي العاقل.

مدہوش وغیرہ کے بارے میں قابل اعتماد بات یہ ہے کہ مدہوش پر حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال و افعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے  ہے۔ یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آجائے، تو اس کے اقوال و افعال میں جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا۔ اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کہ یہ جاننا اور ارادہ کرنا معتبر نہیں۔ اس لیے کہ ادراک صحیح طرح سے حاصل نہیں ہوا۔ جیسے عقلمند شخص بچے کی بات کا اعتبار نہیں کرتا۔

  1. ابن عابدين، ردالمحتار، 3: 244، دارلفکر للطباعة و النشر، بيروت

  2. عالمگيري 1: 353، طبع کوئته

  3. الکاساني، بدائع الصنائع، 3: 100

  4. هدايه مع فتح القدير، 3: 343، طبع سکهر

عبدالرحمن الجزری ’’الفقہ علی المذاہب الاربعۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:

والتحقيق عند الحنفية ان الغضبان الذي يخرجه غضبه عن طبيعته و عادته بحيث يغلب الهذيان علی اقواله وافعاله فان طلاقه لايقع، وان کان يعلم مايقول و يقصده لانه يکون في حالة يتغير فيها ادراکه، فلايکون قصده مبنيا علی ادراک صحيح، فيکون کالمجنون، لان المجنون لايلزم ان يکون دائمافي حالة لايعلم معها ما يقول: فقديتکلم في کثير من الاحيان بکلام معقول، ثم لم يلبث ان يهذی.

’’حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصے والاشخص جسے اس کا غصہ اس کی عام طبیعت اور عام عادت سے اس طرح باہر کر دے کہ اس کی باتوں اور اس کے کاموں پر بے مقصدیت غالب آ جائے، اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔اگرچہ وہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہاہے، اور ارادہ سے ہی کہتا ہو۔ کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتاہے کہ جس میں اس کے ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آ جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا۔ پس وہ (مجنون و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنون کی طرح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنون ہمیشہ ویسی ہی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو۔ بلکہ بعض اوقات وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں بھی کرتا ہے۔ پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔

عبدالرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذهب الاربعة، 4: 295294، داراحياء التراث العربي، بيروت

شیخ الاسلام امام احمد رضا خاں حنفی قادری رحمۃ اﷲ علیہ بھی فرماتے ہیں:

’’ غضب اگر واقعی اس درجہء شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہوگی‘‘۔

امام احمدرضا، فتاوٰی رضويه، 12: 378، مسئله: 146

امام احمدرضاخان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ وتلمیذخاص علامہ امجدعلی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں:

’’یونہی اگرغصہ اس حد کا ہوکہ عقل جاتی رہے تو (طلاق) واقع نہ ہوگی۔‘‘

امجدعلی، بهار شريعت، 8: 7، طبع لاهور

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ شدید غصہ، جس میں انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہ رہے، اس کیفیت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی