شوہر اور بیوی کے اختلافی قول کی صورت میں‌ کس پر اعتبار کیا جائے؟


سوال نمبر:3123
السلام علیکم حضرت! واقعہ یہ ہے کہ مرد شافعی ہے اور عورت حنفی۔ مرد نے طلاق دے دی اب شوہر کہتا ہے کہ میں نے دو طلاقیں دی اور بیوی کہتی ہے کہ تین دی ہیں جبکہ زوجین کے پاس گواہ بھی نہیں ہے، تو اب کیا صورت نکلے گی؟ بیّنوا وتوجّروا

  • سائل: محسن مصباحیمقام: بھروچ گجرات، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 15 اپریل 2014ء

زمرہ: معاملات  |  شہادت (گواہی)  |  طلاق

جواب:

آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کے بیان میں تضاد پایا جا رہا ہے۔ خاوند کہتا ہے میں نے دو طلاقیں دی ہیں اور عورت کہتی ہے کہ اس نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں کیونکہ اب گواہ بھی موجود نہیں ہے لہٰذا خاوند کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔

الہدایۃ میں ہے۔

إن اختلفا في الشرط فالقول قول الزوج إلا أن تقیم المرأة البینة لأنه متمسک بالأصل وهو عدم الشرط ولأنه منکر وقوع الطلاق وزوال الملک والمرأة تدعیه فان کان الشرط لا یعلم الا من جهتها فالقول قولها في حق نفسها.

’’اگر میاں بیوی شرط پائے جانے میں اختلاف کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ ہاں اگر عورت اس کے خلاف ثبوت لائے تو اس کی بات مانی جائے گی۔ اس لئے کہ خاوند اصل سے دلیل لا رہا ہے اور اصل یہ ہے کہ شرط نہ پائی جائے۔ کیونکہ طلاق واقع ہونے اور ملک متع کے زوال کا انکار کر رہا ہے اور عورت اس کی دعویدار ہے۔ ہاں اگر شرط ایسی ہے جو صرف عورت کی طرف سے معلوم ہو سکتی ہے تو بات عورت کی، اس کے حق میں مانی جائے گی‘‘۔

مرغیناني، الہدایۃ شرح البدایۃ، 1: 252، المکتبۃ الاسلامیۃ

لہٰذا گواہ موجود نہیں اگر دونوں حلفاً بھی بیان کریں تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔ باقی رہا حنفی اور شافعی ہونے کا مسئلہ اس سے یہاں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی