چلا کشی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:2772
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ چلا کاٹنے سے کیا ہوتا ہے اس کی شرعی حیثیت بتا دیں؟ اگر شریعت میں منع ہے تو پھر خواجہ معین الدین چشتی نے حضرت داتا صاحب، حضرت فرید الدین مسعود گجن شکر، حضرت امام بری سرکار اور دیگر اولیاء کرام کی چلہ گاہیں کیوں مشہور ہیں؟ کیا یہ سادہ لوح لوگوں نے از خود بنا کر مشہور تو نہیں‌ کر دیں؟ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں

  • سائل: محمد فرحان جمیلمقام: مسقط، عمان
  • تاریخ اشاعت: 04 فروری 2014ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

پہلے وقتوں میں جب اولیاء کرام دین اسلام کی تبلیغ کے لیے مختلف علاقوں میں جاتے تھے، وہاں دو صورتیں ہوتی تھیں۔ ایک یہ کہ وہاں پر پہلے سے مسلمان موجود نہیں ہوتے تھے یا بہت ہی کم تعداد میں ہوتے تھے تو وہ کسی مناسب جگہ پر ڈیرہ جما لیتے تھے، پھر آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات کا پرچار کرتے تھے، بلکہ خود عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔ لوگ متاثر ہو کر اسلام کی طرف آنا شروع ہو جاتے تھے۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ بعض جگہ پر پہلے سے اسلام کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کام ہوا ہوتا تھا اور وہاں کسی اللہ کے ولی کا ڈیرہ ہوتا تھا۔ جب دوسرا مبلغ اس علاقے کا رخ کرتا وہ دیکھتا کہ مناسب جگہ کون سی ہے؟ جہاں پر اس کو کچھ لوگ مل جائیں جن کی مدد سے بآسانی دین اسلام کی تبلیغ کا کام کیا جا سکے تو اس کام کی انجام دہی کیلئے جہاں قیام کرتے وہ جگہ وہی ہوتی تھی جہاں پہلے کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ دین کی دعوت دے چکا ہوتا۔ جیسے عثمان بن علی المعروف داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور میں آ کر تبلیغ دین کی اور لوگوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جس کی وجہ سے ارد گرد بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ پھر جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس طرف تشریف لائے تو انہوں نے بھی پہلے اسی جگہ قیام کیا کیونکہ پہلے سے لوگ دین کے بارے میں جانتے تھے ان کی مدد سے لوگوں کو دعوت دینا آسان تھی۔

لہذا اولیاء کرام نے جو جو جگہ مناسب سمجھی یا ان کو جس جگہ کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے وہاں جا کر قیام کیا۔ عبادت و ریاضت بھی جاری رکھی اور ساتھ ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کا کام بھی جاری رکھا۔ اس کی مثال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارکہ سے بھی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کچھ دن کے لیے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس لیے اولیاء کرام پہلے وقتوں میں بھی اور آج کل بھی کچھ نہ کچھ وقت خلوت نشینی میں گزارتے ہیں اور موقع کی مناسبت کے اعتبار سے دین اسلام کی اشاعت کا کام بھی کرتے تھے۔

اگر اولیاء کرام کے حالات زندگی کا مطالعہ مستند کتابوں سے کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مرنا جینا اشاعت اسلام کے لیے تھا۔ انہوں نےساری ساری زندگی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں گزاری، لیکن آج کل کچھ نا اہل اور جاہل لوگوں نے ان کے اصل مشن پر تو پردہ ڈال رکھا ہے اور من گھڑت باتیں سنا سنا کر لوگوں کو حقیقت سے دور رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی اصل زندگی بزرگان دین اور خدمت دین سے خالی ہوتی ہے، نہ عبادت، نہ ریاضیت، نہ خدمت دین کا عملی نمونہ، اور لوگ اگر ان سے اس بارے سوال کریں تو ان کے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہوتا؟ اس لیے ایسے لوگ طرح طرح کی عجیب وغریب باتیں اولیاء کرام کی طرف منسوب کرتے ہیں مثلا فلاں بزرگ اٹھارہ سال کنوئیں میں الٹے لٹکے رہے۔ فلاں بزرگ کئی سال تک پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے رہے وغیرہ وغیرہ۔ لہذا جن لوگوں کے ذہن میں ہے کہ انہوں نے اس طرح کے چلے کیے یہ بات غلط ہے، ان کے چلے یہی ہوتے تھے کہ وہ دین کی خدمت میں مصروف عمل رہتے تھے لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے تھے اور ان کی تربیت بھی کرتے تھے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی