خلفائے راشدین کے والدین کے حالات زندگی کیا ہیں؟


سوال نمبر:2648
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے والدین کے نام کیا ہیں اور ان کی قبریں کہاں‌ واقع ہیں؟

  • سائل: تجمل شاہمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 02 مارچ 2016ء

زمرہ: اسلامی تاریخ

جواب:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد خلافت، ’خلافت راشدہ‘ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اولین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آخری خلیفہ ہیں۔ خلفائے راشدین اور ان کے والدین کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

خلیفہ اوّل: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے دو سال چند ماہ بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اپنے قبیلہ کے بہت دولت مند اور صاحب ثروت تھے۔ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لائے اور سب سے پہلے حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے قبولِ اسلام سے دمِ آخر تک حضور کی صحبت سے فیضاب رہے اور بلا اجازت حضور سے کہیں جدا نہ ہوئے۔ حضور کے ساتھ ہجرت کی اور اپنے اہل و عیال کو خدا اور رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں چھوڑ دیا۔ اسلام لانے کے بعد اپنا سب کچھ اسلام کی حمایت میں خرچ کر دیا۔ آپ کی شان میں بہت آیتیں نازل ہوئیں اور بکثرت حدیثیں وارد ہیں جن سے آپ کے فضائل جلیلہ معلوم ہوتے ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ، لقب صدیق و عتیق اور کنیت ابوبکر ہے۔ آپ کے والدِ گرامی کا نام عثمان اور ان کی کنیت ابوقحافہ ہے۔ ابوقحافہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے اور 14 ہجری میں 97 سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا۔ ان کا مدفن مکہ مکرمہ میں ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر بن عامر ہے۔ وہ ام الخیر کی کنیت سے مشہور تھیں۔ حضرت ابوبکر کے قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ بھی ایمان لے آئیں اور آپ نے ہجرت مدینہ بھی کی۔ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد اور حضرت ابوقحافہ کی وفات سے پہلے آپ کا وصال ہوا۔ آپ کا مدفن مدینہ منورہ میں ہے۔

خلیفہ دوم: حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ عام فیل کے تیرہ برس بعد پیدا ہوئے۔ آپ اشراف قریش سے ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال 27 سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسلام لانے کے بعد آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مسلمانوں کو ہمراہ لے کر اعلان و شوکت کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپ کے مسلمان ہونے سے اسلام کی قوت و شوکت بڑھی، مسلمان نہایت مسرور ہوئے اور کافروں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عمر، کنیت ابو حفص اور لقب فاروق ہے۔ آپ کے والد کا نام الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ ہے اور والدہ حنتمہ بنت ہاشم المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے والدین نے اسلام قبول نہیں کیا اس لیے ان کی بارے میں مزید تفصیلات نہیں ملتیں۔

خلیفہ سوم: حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت عام فیل کے چھٹے سال ہوئی۔ آپ کو اسلام کی دعوت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دی۔ آپ کے نکاح میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور پھر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما آئیں۔ آپ کے سوا دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسا نہیں جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئی ہوں۔ اسی لیے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عثمان، کنیت ابوعبداللہ اور ابوعمر جبکہ آپ کا لقب ذوالنورین ہے۔آپ کے والد عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدمناف ہیں اور والدہ ارویٰ بنت کریز بن ابیعہ بن حبیب بن عبدالشمس بن عبدمناف ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پانچویں پشت میں رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِامجد عبدمناف سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد حالت کفر میں ہی انتقال کر گئے تھے، تاہم آپ کی والدہ ماجدہ اوائل اسلام میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں اور سیدنا عثمان غنی کے زمانہ خلافت میں مدینہ منورہ میں ان کا وصال ہوا۔ سیدہ ارویٰ رضی اللہ عنہا کا مدفن بھی مدینہ منورہ میں ہی ہے۔

خلیفہ چہارم: حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم

سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نو عمروں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ حضرت صدیق اکبر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح آپ نے کبھی بت پرستی نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی خاتون جنت کے ساتھ آپ کا عقد نکاح ہوا۔ آپ کی ہیبت و دبدبہ سے آج بھی جواں مرداں شیر دل کانپ جاتے ہیں۔ کروڑوں اولیائے کرام آپ کے چشمہ علم و فضل سے سیراب ہو کر دوسروں کی رشد و ہدایت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سادات کرام اور اولاد رسول علیہ السلام کا سلسلہ پروردگار عالم نے آپ سے جاری فرمایا۔

سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نام نامی اسم گرامی علی، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب جبکہ آپ کا لقب حیدر کرار ہے۔ آپ کے والد عمران ہیں جو ابوطالب کی کنیت سے مشہور ہیں اور والدہ فاطمہ بنت اسد ہیں۔ آپ کے والد ابوطالب کی شادی اپنی چچازاد بہن فاطمہ بنت اسد سے ہوئی اس لیے ان کا سلسلہ نسب ایک ہی ہے۔ علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب (شیبہ) بن ہاشم (عمرو) بن عبدمناف (مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ہے۔

حضرت ابوطالب کا قبولِ اسلام اختلافی مسئلہ ہے، تاہم قرائن و شواہد آپ کے اسلام قبول کرنے کی دلالت کرتے ہیں۔ آپ نے تاحیات اشاعت اسلام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا اور شجرِاسلام کی آبیاری کی۔آپ خاندان بنو ہاشم کے سربراہ، حجاج کی میزبانی اور سقایت کے مناصب پر فائز تھے۔ آپ نے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد پوری قوت اور وجود سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا اہتمام کیا اور مشرکین کی طرف سے بنوہاشم کے معاشی اور سماجی محاصرے کے دوران شعب ابی طالب میں صعوبتیں اور مشکلات برداشت کیں۔ حضرت ابوطالب کی وفات مکہ میں ہوئی اور وہیں آپ کا مدفن ہے۔

حضرت فاطمہ بن اسد اوائل دور میں اسلام لانے والوں میں شامل ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ہجرت مدینہ بھی کی اور ہجرت کے چند سال بعد مدینہ منورہ میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ کا مدفن جنت البقیع میں ہے۔

مذکورہ بالا مضمون کے لیے درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے:

  1. ابن سعد، ابو عبد اﷲ محمد (168-230ه)، الطبقات الکبری، بيروت، لبنان: دارصادر
  2. بن عبد البر، ابو عمر يوسف بن عبد اﷲ بن محمد (368-463ه)، الاستيعاب في معرفة الاصحاب، بيروت، لبنان: دار الجيل
  3. ابن عساکر، ابو قاسم علی بن حسن بن هبة اﷲ بن عبد اﷲ بن حسين دمشقي (499-571ه)، تاريخ مدينه دمشق، بيروت، لبنان: دار الفکر
  4. ابن کثير، ابو الفداء اسماعيل بن عمر (701-774ه)، البداية والنهاية، بيروت، لبنان: دار الفکر
  5. ابنِ اثير، ابو الحسن علي بن محمد بن عبد الکريم بن عبد الواحد شيباني جزري (555-630ه)،اسد الغابة في معرفة الصحابه، بيروت، لبنان: داراحياء التراث العربي
  6. خطيب بغدادي، ابو بکر احمد بن علي بن ثابت بن احمد بن مهدي بن ثابت (392-463ه)، تاريخ بغداد، بيروت، لبنان: دار الکتب العلميه
  7. عسقلاني، احمد بن علي بن محمد بن محمد بن علي بن احمد کناني (773-852ه)، الاصابة في تمييز الصحابة، بيروت، لبنان: دار الجيل

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری