جواب:
حدیث پاک میں ہے :
عن فاطمة بنت قيس قالت سالت أو سئل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الزکاة فقال ان فی المال لحقا سوی الزکاة ثم تلا هذه الآية التی فی البقرة (لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ) الآية.
'حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے یا کسی اور نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زکوۃ کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا : مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے، پھر آپ نے سورۃ بقرہ کی آیت (نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں) تلاوت فرمائی'
ترمذی، السنن، 3 : 48، رقم : 659، دار احياء التراث العربی بيروت
دار قطنی، السنن، 2 : 125، رقم : 11، دار المعرفة بيروت
معلوم ہوا حکومتی معاہدہ کے مطابق ٹیکس ادا کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ ٹیکس نظام حکومت کو برقرار رکھنے، دفاع اور دیگر امور سلطنت پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے ضروری ہوتا ہے، لیکن ٹیکس ظالمانہ نہیں منصفانہ ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ غریب عوام کو ٹیکسز تلے دفن کر دیا جائے اور امیر اس سے مبرا ہوں یا غریبوں کا خون چوس چوس کر اہل اقتدار عیش وعشرت کرتے رہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔