اسلام کا حقیقی تصورِ عبادت کیا ہے؟


سوال نمبر:248
اسلام کا حقیقی تصورِ عبادت کیا ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2011ء

زمرہ: عبادات  |  عبادات  |  عبادات  |  عبادات  |  عبادات  |  عبادات

جواب:

اسلام کا حقیقی تصور عبادت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہر حکم کو برضا و رغبت اس طرح بجا لایا جائے کہ انکار کی مجال نہ رہے۔ عبادت کی اصل روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو حکم بھی دے، اس پر بلاچون و چرا عمل کیا جائے اور یہ حالت پختہ اعتماد اور یقین کے بغیر ممکن نہیں۔

لہٰذا اطاعت و عبادتِ الٰہی کو صرف نماز، روزہ اور دیگر فرائض تک محدود سمجھنا غلط ہے۔ اس کے برعکس حقیقی اور صحیح تصورِ عبادت یہ ہے کہ بندہ جس دن سن بلوغ کو پہنچے اس دن سے لے کر زندگی کے آخری دن تک اس طرح اپنی زندگی گزارے کہ اس کا کوئی کام بھی خلافِ شرع نہ ہو۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کا اپنے بیوی بچوں سے سلوک، اپنے پڑوسیوں، اپنے ماتحتوں، افسروں، مزدوروں اور اپنے سے چھوٹوں اور بڑوں الغرض ہر ذی قرابت اور ذی حق کے ساتھ اس کا سلوک اور معاملہ خدا کے حکم کے مطابق ہو۔ لہٰذا اگر کوئی انسان ذوی الحقوق کے حقوق پورے کرتا ہے تو اس کی زندگی کے شب و روز اور اس کی حیات کا ایک ایک سانس مصروف عبادت ہے۔ اگر کوئی معالج پوری رات یا اس کا کچھ حصہ کسی کراہتے ہوئے مریض کے علاج معالجے کی غرض سے اس کے سرہانے گزار دیتا ہے، تو اس کا یہ عمل بھی عبادت ہے۔

قرآن حکیم نے عبادت کے اس جامع تصور کو یوں بیان کیا ہے :

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَO

’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo‘‘

 البقرة، 2 : 177

اس آیتِ کریمہ میں پیش کردہ عبادت کا تصور انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا معیشت سے، معاشرت سے ہو یا سیاست سے، حالت جنگ سے ہو یا حالت امن سے، گویا عبادت اطاعتِ الٰہی کی اس کیفیت کا نام ہے جو پوری زندگی کے احوال کو محیط ہوتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔