کیا لڑکا اور لڑکی شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں؟


سوال نمبر:2415
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنا کیسا ہے؟

  • سائل: عاصممقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 31 جنوری 2013ء

زمرہ: نکاح

جواب:

فرمان الہٰی ہے:

فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.

’’اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو‘‘۔

النساء 4 : 3

یہ پسند دو طرفہ ہو گی، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا :

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo

’’اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔

الروم، 30 : 21

اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں:

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَةَ فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَی مَا يَدْعُوهُ إِلَی نِکَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ. قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِيَةً فَکُنْتُ أَتَخَبَّاُ لَهَا حَتَّی رَأَيْتُ مِنْهَا مَا دَعَانِي إِلَی نِکَاحِهَا فَتَزَوَّجْتُهَا.

جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا‘‘۔

  1. أحمد بن حنبل، (164.241) ه، المسند، 3 : 334، رقم : 14626، مؤسسة قرطبة مصر

  2. أبو داؤد، (202.275) ه، السنن، 2 : 228، رقم : 2082، دار الفکر

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَهَا فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا .

مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‘‘

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 246، رقم : 18179

  2. نسائی، (215.303) ه، السنن الکبری، 3 : 272، رقم : 1865، دار الکتب العلمية بيروت

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ ﷲِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ .

بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنوای لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی : یا رسول اللہ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔‘‘

1. بخاری، (194.256) ه، الصحيح، کتاب النکاح، باب : لاتنکح الأب و غيره البکر والثيب الابرضاها، 5 : 974، رقم : 4843، دارابن کثير اليمامة، بيروت

2. مسلم، (206.261) ه، الصحيح، باب استئذان الثيب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت، 2 : 1036، رقم : 1419، داراحياء التراث العربی بيروت

مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں لڑکے اور لڑکی کی پسند کا خیال رکھنا والدین پر واجب ہے۔ ان کی مرضی کے خلاف شادی مسلط نہیں کی جانی چاہئے۔ اسلام کی رو سے لڑکے کے لیے لڑکی کو دیکھنا اور لڑکی کے لیے لڑکے کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ اگر دیکھ کر جاننے کی کوشش کریں گے تو پھر حدود عبور ہوتی ہیں۔ جہاں Limit Cross ہونے کا ڈر ہو، وہاں سے بچنا بہتری ہے۔ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنا بھالنا مغربی دنیا سے زیادہ تو کوئی نہیں کرتا۔ شادی سے پہلے وہ سال دو سال دوست رہتے ہیں۔ جب ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں، تو پھر شادی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ طلاقیں اور علیحدگیاں مغربی دنیا میں‌ ہی ہوتی ہیں۔ آپ کو سو (100) میں سے دو (2) جوڑے ہی ایسے نظر آئیں گے جو بڑھاپے تک اکٹھے رہ رہے ہوں۔

ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں، ایک والدین کا ہے جو لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتا اور اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستا ہے۔ دوسری طرف اولاد کا ایک ایسا طبقہ ہے جو والدین کی رائے لینا پسند نہیں کرتا۔ وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں اور کبھی سیر و تفریح کے لیے کئی کئی دن رات گھر سے غائب رہتے ہیں۔ والدین کو پوچھنے کی جرات تک نہیں۔ لیکن یہ دونوں انتہائیں ہیں، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔ آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ دونوں خاندان ایک دوسرے کو کھانے پر مدعو کریں، اس طرح لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ مگر افسوس ایسا بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی