اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کے بارے میں‌ کیا احکام ہیں؟


سوال نمبر:2379
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں وٹہ سٹہ کا تصور ہے؟ اس کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں؟ بہت مسئلہ بنا ہوا ہے برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب دیں۔

  • سائل: ارسلانمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 09 مارچ 2013ء

زمرہ: معاملات  |  نکاح

جواب:

وٹہ سٹہ سے مراد ہے ایک گھر والے اپنی بیٹی کی شادی جس لڑکے سے کرتے ہیں ان کی بیٹی سے اپنے بیٹے کی شادی کرتے ہیں یعنی دونوں طرف سے رشتے لیے جاتے ہیں۔ اب اگر تو یہ کہا جائے کہ حق مہر نہیں دیا جائے گا یہ لڑکیاں ہی ایک دوسرے کا حق مہر ہیں پھر تو یہ جائز نہیں ہے نہ ہی ایسا کیا جائے کہ دونوں طرف برابر برابر حق مہر رکھ کر کہہ دیں کہ ایک دوسرے سے لینے کی بجائے برابر برابر ہو گیا ہے۔

مثلا دو دو ہزار دونوں کے لیے متعین کیا، بعد میں کہہ دیا لینے دینے کی ضرورت نہیں برابر ہی ہے۔ ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس طرح کیا جائے گا کہ دونوں لڑکیوں کی ڈیمانڈ کے مطابق حق مہر ہو گا اگر متعین نہ کیا تو پھر دیکھا جائے گا کہ اس خاندان کی باقی عورتوں کا حق مہر کتنا کتنا ہوتا ہے، اس حساب سے دے دیا جائے گا۔ اگر دونوں طرف سے لڑکیوں کی ڈیمانڈ کے مطابق حق مہر دے کر نکاح کیا تو شرعی طور پر درست ہو گا۔

باقی اس کے فوائد تو بہت کم ہیں، نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیمات بہت کم ہیں۔ ہم لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کس کا گناہ ہے۔ جب ایک طرف کوئی مسئلہ بن جائے تو دوسری طرف والا لڑکا اپنی بہن کی غلطی پوچھے بغیر اپنی بیوی پر بھی وہی عمل کرتا ہے جو دوسری طرف اس کے بھائی نے کیا ہوتا ہے۔ ایک طرف طلاق ہو جائے تو دوسری طرف بے گناہ ہونے کے باوجود طلاق دے دی جاتی ہے۔ یعنی حقیقت کو نہیں دیکھا جاتا بس عمل کا رد عمل ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح ایک لڑکی کی زندگی اس کے کرتوتوں کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک بے گناہ لڑکی کی زندگی تباہ کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے بہتر ہے کہ وٹہ سٹہ سے پرہیز کیا جائے تاکہ زندگی سکون سے گزر سکے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی