جواب:
فقہ کا لغوی معنی ہے : ’’کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا۔‘‘
قرآن حکیم میں درج ذیل مواقع پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے :
ابن منظور، لسان العرب، 13 : 522
1. قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ.
’’وہ بولے : اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں‘‘
هود، 11 : 91
2. قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًاo
’’آپ فرما دیں (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتےo‘‘
النساء، 4 : 78
3. فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَo
’’تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ (کچھ) نہیں سمجھتےo‘‘
المنافقون، 63 : 3
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ.
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اﷲ به خيرا يفقهه فی الدين، 1 : 39، رقم
: 71
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب النهی عن المسألة، 2 : 718، رقم : 1037
اسی لئے شرعی اصطلاح میں فقہ کا لفظ علمِ دین کا فہم حاصل کرنے کے لئے مخصوص ہے۔
ابن منظور، لسان العرب، 13 : 522
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الفقه : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها.
’’فقہ نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے۔‘‘
الزرکشی، المنثور، 1 : 68
بالعموم فقہاء کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية.
’’(فقہ) شریعت کے وہ فروعی احکام جاننے کا نام ہے جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہوں۔‘‘
مندرجہ بالا تعریفات واضح کرتی ہیں کہ فقۂ اسلامی سے مراد ایسا علم و فہم ہے جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کا علم ہو جائے اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو جیسے نماز کی فرضیت کا علم اَقِيْمُو الصَّلٰوۃ کے ذریعے حاصل ہوا، زکوٰۃ کی فرضیت کا علم اٰتُوا الزَّکٰوۃَ کے ذریعے حاصل ہوا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔