شہادتِ رسالت سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:215
شہادتِ رسالت سے کیا مراد ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2011ء

زمرہ: ایمان بالرسل

جواب:

شہادتِ رسالت سے مراد یہ ہے کہ زبان سے اس بات کا اقرار اور دل سے تصدیق کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انبیاء و رسل بھیجے جو تمام برحق تھے اور ان کی نبوت و رسالت مخصوص زمانوں اور افراد کے لئے تھی، جبکہ سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جن و انس کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ابد تک ہمیشہ کے لئے ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاo

’’اے نبی (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘

 الاحزاب، 33 : 45، 46

شہادتِ رسالت کے ساتھ درج ذیل امور کی تصدیق کرنا لازمی اور واجب ہے :

1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیبی واقعات کے بارے میں دی گئی ان تمام خبروں کی تصدیق کرنا جو گزر چکے ہیں یا آئندہ پیش آنے والے ہیں۔

2۔ ان تمام چیزوں کی تصدیق کرنا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال و حرام قرار دیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.

’’اور جو کچھ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔‘‘

 الحشر، 59 : 7

3۔ جن چیزوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا انہیں بجا لانا اور جن امور سے منع فرمایا ان سے رک جانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی خوشی اور دل جمعی سے اِتباع کرنا اور ظاہر و باطن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو اپنے اوپر واجب کرنا۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ أطَاعَنِيْ فَقَدْ أطَاعَ اﷲَ، وَمَنْ عَصَانِيْ فَقَدْ عَصٰی اﷲَ.

’’جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الاحکام، باب قول اﷲ تعالٰی : أطيعوا اﷲ و أطيعوا الرسول و أولی الأمر منکم، 6 : 2611، رقم : 6718

انبیاء و رُسل کا مقصدِ بعثت ہی یہ ہے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل اور ان کی اطاعت کی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ.

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

 النساء، 4 : 64

مذکورہ آیات و احادیث واضح کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت فرض ہے، اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر نہیں چلتا، شرعی احکام کی پیروی نہیں کرتا تو وہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا نہیں، کیونکہ ایمان بالرسالت اتباع و اطاعتِ رسول کا تقاضا کرتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔