صفائے قلب سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:183
صفائے قلب سے کیا مراد ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 21 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

تصوف کا دوسرا بنیادی مقصد صفائے قلب ہے۔ جب انسان کا نفس گناہ کی آلودگیوں اور برے اخلاق سے ناپاک ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات سے قلب انسانی پر سیاہی چھا جاتی اور اس کا باطن تاریک ہوجاتا ہے۔ اسلام اس امر کا متقاضی ہے کہ باطن کی صفائی کا اہتمام کیا جائے تاکہ قلب انسانی معرفتِ الٰہی کے نور کا گہوارہ بن سکے۔

قرآن حکیم میں ہے :

کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّاکَانُوْايَکْسِبُوْنَO

’’ہرگز نہیں بلکہ ان کے کسب کی بناء پر ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘

 المطففين، 83 : 14

اسی طرح حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فی الإِنسان مضغة إِذ اصلحت صَلُح له سائر جسده، و إِذا سقمت سقم له سائر جسده؛ وهي القلب.

’’تحقیق جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہوجائے تو تمام جسم کی اصلاح بھی خود بخود ہوجائے گی اور اگر وہ فاسد و خراب ہوجائے تو سارے جسم میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘

 امام بيهقی، شعب الايمان، 1 : 475، رقم : 758

لیکن جب انسان کا نفس گناہ کی آلودگیوں اور رذائل اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات انسان کے قلب و باطن پر بھی مرتب ہونے لگتے ہیں جب انسان کی غیض و غضب کی قوت اس کی لطیف جذبۂ رحم اور عفوو درگزر سے مغلوب ہوجاتی ہے تو اس کی شخصیت کا جمالیاتی پہلو غالب آجاتا ہے، غرور و تکبر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان کے دل میں نرمی اور رقت پیدا ہوتی ہے جو قلب کی صفائی و چمک کا باعث بنتی ہے۔ اس طرح دین کا ایک اہم تقاضا پورا ہوجاتا ہے کیونکہ جب دل ہرقسم کی آلودگی سے پاک ہوجائے تو وہ قرآن کی نظر میں قلب کا درجہ پاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنْونَO اِلاَّ مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍO

’’جس دن انسان کے نہ مال کام آئے گا نہ اولاد، مگر جو اﷲ کے پاس پاک قلب لے کر آئے گا۔‘‘

 الشعرا، 26 : 89 - 88

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔