تزکیہ نفس سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:181
تزکیہ نفس سے کیا مراد ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 21 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

تزکیہ کا لفظی معنی ہے پاک صاف کرنا، نشوونما دینا۔ اسی سے لفظ زکوٰۃ نکلا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیO

’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘

 الاعلی، 87 : 14

لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد ہے کہ نفسِ انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو کہ روحانی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔

اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کیاری میں پودینہ بوئے پھر اس کے بعد وہاں غیر ضروری گھاس اگ آئے جو پودینہ کی نشوونما میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اسے اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے تاکہ زمین کی ساری تخلیقی قوت اس گھاس پھونس پر صرف ہونے کی بجائے صرف پودینے کی نشونما پر صرف ہو۔ صفائی کے اس عمل کا نام تزکیہ ہے۔

تزکیہ کے اسی عمل کو قرآن مجید نے فلاح (کا میابی) قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَاO وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَاO

’’یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے (اپنے) نفس کو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملادیا۔‘‘

 الشمس، 91 : 9، 10

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔