جواب:
نعت کا آغاز تو اس وقت سے ہے جس کو ہم بھی نہیں جانتے لیکن قرآن میں اللہ تعالی نے یہ آیت مقدسہ نازل فرما کر بتا دیا۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.
(الْأَحْزَاب ، 33 : 56)
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
پتہ نہیں اللہ تعالی کب سے اپنے محبوب کی نعت بیان کر رہا ہے؟ دوسری بات یہ کہ فرشتے بھی نعت بیان کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بیان کرتے تھے اور بے شمار صحابہ کرام نعت خواں تھے جن میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ایک صحابی نعت خوان ہیں، نعت خوانوں کو انعام واکرام سے نوازنا خود حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو نعت پڑھنے کے دوران اپنی چادر مبارک بطور تحفہ دی تھی۔ لہذا شرعا نعت خوانوں کو روپے پیسے کے طور پر انعامات دینا جائز ہے۔ اسی طرح قراء اور خطباء حضرات کو بھی انعام واکرام سے نوازنا شرعا جائز ہے۔ کیونکہ یہ روپے اور پیسے ان کو اس وقت کے معاوضے کے طور پر دیئے جاتے ہیں جو وقت وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت سرائی میں صرف کرتے ہیں۔ اگر وہ اتنا وقت دوسرے معاملات میں لگائیں تو وہاں سے بھی پیسہ کما سکتے ہیں۔
لہذا ان کی ضرورت کے مطابق پیسہ دینا جائز ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے اس نیک کام کو بھی پیشہ بنا لیا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف عوام بھی برابر کی شریک ہے۔ بعض حضرات جو روپے پیسے کا مطالبہ نہیں کرتے عوام ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کیا جاتا اور عوام نے ہی ان کے مطالبات کو بڑھایا ہے۔ اس معاملے کا بہترین حل یہی ہے کہ دونوں طرف سے افراط و تفریط ختم کی جائے۔ ان حضرات کے جائز مطالبات اور ضروریات کو بھی پورا کیا جائے اور ان کو چاہیے کے عوام الناس سے ناجائز مطالبات بھی نہیں کرنے چاہیے۔
مزید
مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
کیا دینی امور پر اجرت لینا جائز ہے؟
اس موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے درج ذیل خطابات سنیں
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔