کیا بچے کو گود لینا دینا جائز ہے؟


سوال نمبر:1746
جناب مفتی صاحب قبلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعدہ عرض خدمت عالیہ میں ہے کہ آج کل معاشرے میں ایک رواج سا پڑتا جارہا ہے کہ اگر کسی کو بچہ نہیں ہوتا تو وہ اپنے کسی متعلق یا رشتہ دار یا پڑوسی سے بچہ گود لیتا ہے۔ حالانکہ بچے کے ماں،باپ زندہ ہوتے ہیں اور اس کی پرورش کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور کوئی شرعی مجبوری بھی نہیں ہوتی جس کے تحت اس کو گود دیا جائے۔ مذکورہ کلام سے چند سوالات سامنے آتے ہیں: (الف)۔ بچے کو اس طرح گودلینا دینا جائزہے؟ (ب)۔ گود لینے کی صورت میں بچہ محارم میں شمار ہوگا یا غیر محرم رہے گا؟ اور گھر والوں کے ساتھ تعامل محارم جیسا رہے گا یا غیر محرم جیسا؟ (ج)۔ بڑے ہونے کے بعد بچے کی طرف سے جن خدشات کا اندایشہ ہوسکتا ہے ۔ بچہ اعتراض کرے یا کوئی اور نامناسب قدم اُٹھائے تو اس کا کیا حل ہوگا؟ (د)۔ بچے کو وراثت اپنے حقیقی ماں ، باپ سے ملے گی یا دوسرے ماں باپ سے؟ یا دونوں سے ملے گی؟ یا دونوں کی وراثت سے محروم رہے گا؟ وضاحت فرمائیں۔ (ھ)پیدائش کے فورا بعد گودلینے یا چند ماہ یا چند سال بعد گودلینے میں حکم مختلف یا متحد؟ (و)۔ کن شرائط کے ساتھ دوسرے کے بچے کو گودلیاجاسکتا ہے؟ (ز)۔ بچے کو پیشے یا مال یا کسی اور چیز کے عوض یا کسی دوسرے بچے کے عوض لینا یا دینا جائز ہے یا نہیں؟ (ح)۔ بچہ کی ولدیت حقیقی باپ کی جانب منسوب ہوگی یا دوسرے؟بالخصوص نکاح اور قربانی اور دیگر اہم مقامات میں؟ (ط)۔ دودھ کے ضائع کرنےسے ماں کافی الوقت اور بچے کا آنے والے وقت میں طبیبوں کے مطابق مرض میں مبتلا ہونا کافی حد تک متوقع ہے۔ ان دونوں کے مرض کا کون ذمہ دار؟ اُمید قوی ہے کہ آپ مذکورہ سوالات کا قرآن و حدیث اور اقوالِ آئمہ (فقہ حنفی) کی روشنی میں جواب تحریر فرماکر ہم مسلمانوں کی پریشانی کو حل فرمائیں گے۔

  • سائل: موسی کاظممقام: بنگلور، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 11 مئی 2012ء

زمرہ: متبنیٰ کے احکام

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں۔

(الف)۔ بچے کو گود لینا یا دینا جائز ہے، اگر بچہ دینے والے کی مجبوری نہیں یا لینے والی کی تو مجبوری ہوتی ہے جس کی اولاد نہیں ہوتی۔

(ب)۔ غیر محرم ہی رہے گا۔ سارے احکامات غیر محرم والے ہی ہوں گے۔ لیکن اگر بچہ دو سال سے کم عمر تھا اور گود لینے والی ماں نے اسے اپنا دودھ پلایا تو احکامات رضاعی بیٹے والے ہوں گے۔

(ج)۔ یہ سب امکانات تو حقیقی اولاد میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔اگر تعلیم وتربیت اچھی ہو تو کوئی شک نہیں گود لئے ہوئے بچے بھی حقیقی اولاد سے زیادہ فرمانبردار ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر تعلیم وتربیت اچھی نہ ہو تو حقیقی اولاد بھی نافرمان، بے ادب اور گستاخ ہو سکتی ہے۔

(د)۔ بچے کو وراثت تو اس کے حقیقی والدین کی طرف سے ہی ملے گی۔ دوسرے ماں باپ اگر چاہیں تو اپنی جائیداد کا کچھ حصہ زندگی میں ہی اس کے نام کردیں لیکن یہ خیال رکھیں کہ حقیقی ورثاء کی حق تلفی نہ ہو۔ اور نہ ہی گود لیا ہوا بچہ ذلیل وخوار ہو کیونکہ ان کے مرنے کے بعد اس کو کچھ نہیں ملے گا۔

(ھ)۔ بچہ جس عمر میں بھی گود لیں کوئی مختلف حکم نہیں ہے۔ ہاں جتنا کم عمر ہو گا۔ اس منتقل کرنا آسان ہو گا وہ آپ سے زیادہ مانوس ہو گا۔

(و)۔ شرائط کوئی نہیں ہیں۔ بس یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اس کو گمراہ نہ کر دیں مذہب میں تبدیلی نہ لے آئیں نہ ہی اسے کسی غلط کام کے لئے استعمال کرنے کا خدشہ ہو۔

(ز)۔ بچے کو کسی کے عوض بھی دے یا لے نہیں سکتے۔ انسان کی قیمت حرام ہے۔ کیونکہ انسان آزاد ہے اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

(ح)۔ بچے کی ولدیت ہر حال میں حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب ہو گی کسی اور کی طرف ولدیت منسوب کرنا حرام ہے۔ بطور سرپرست کسی اور کا نام لکھا جائے گا یا پھر چچا، ماموں، خالو یا جو بھی رشتہ ہو گا۔

(ط)۔ آج کل تو اصل مائیں بھی دودھ نہیں پلاتیں جس کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں بہر حال ہم تو اس حق میں ہیں کہ مائیں بچوں کو دودھ پلائیں تاکہ بچہ اور ماں دونوں کسی بھی مرض میں مبتلا ہونے سے بچ سکیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری