کیا کسی دوسرے کا مال دھوکے سے کھانا جائز ہے؟


سوال نمبر:1645
میں نے اپنے کزن کو کام دیا تھا کہ اور اس پر بہت بھروسہ کرتا تھا، اس کا اور میرا یہ سودا اس زبان پر تھا کہ وہ مجھ سے مارکیٹ ریٹ پر یا اس سے کم قیمت پر لے گا، میں‌ نے اسے 100 روپے کا کام دیا تو اس نے اس کا ریٹ 98.5 روپے لگایا۔ کہ اس وقت مارکیٹ کا ریٹ یہ ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ یہ کام وہ میرے ساتھ تین سال سے کر رہا تھا۔ بعد میں‌ مارکیٹ میں‌ قیمت معلوم کی تو پتہ چلا کے مارکیٹ کا ریٹ تو 97 روپے ہے۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں‌ کہ اس نے جو غلط بیانی کر کے مجھ سے 1.5 روپے زیادہ لیے تو کیا وہ اس کے لیے جائز ہیں یا نہیں؟

  • سائل: محمد الطاف قادریمقام: کراچی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 14 اپریل 2012ء

زمرہ: مالیات

جواب:

کسی دوسرے کا مال دھوکے سے کھانا ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، بے شمار آیات اور احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ

(النِّسَآء، 4 : 29)

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو،

درج ذیل آیت کی روشنی میں پتہ چلا کہ ایک دوسرے کے مال کو دھوکے، فراڈ اور باطل طریقے سے کھانا حرام ہے، لہذا جس طرح آپ بیان کر رہے ہیں اگر ویسا ہی ہے تو پھر آپ کے کزن نے آپ کا مال دھوکے سے کھایا جو اس کے لئے حرام اور ناجائز ہے۔ دین اسلام کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔ اور یہ سارے امور حرام ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری