اولیاءاللہ خوف و حزن سے محفوظ ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:1422
سن لو بے شک! اللہ کے ولیوں کو نہ خوف ہے نہ غم (سورہ یونس آیت نمبر 62) اس آیت کا مطلب بتائیں۔

  • سائل: مومن عائشہمقام: ھند
  • تاریخ اشاعت: 07 فروری 2012ء

زمرہ: روحانیات

جواب:

اولیاء اللہ غم اور خوف سے آزاد ہوتے ہیں، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ شہید، لیکن اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان کی تحسین اور تعریف کریں گے۔ صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خبر دیں کہ وہ کون لوگ ہونگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے محض اللہ کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، حالانکہ وہ لوگ ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں نہ ان کو ان سے کوئی مالی فائدہ ہوتا ہے، اللہ کی قسم ان کے چہرے منور ہونگے اور بے شک وہ نور کے منبر پر فائز ہونگے اور جب لوگ خوفزدہ ہونگے تو انہیں خوف نہیں ہوگا۔ اور جب لوگ غمزدہ ہونگے تو انہیں غم نہیں ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :

أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَo

(يُوْنـُس ، 10 : 62)

خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گےo

(سنن ابی داؤد، رقم الحديث : 3028، مشکوٰة شريف، 3 / 12 )

امام ابن جریر طبری اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں کہ سنو اللہ کے دین کے مددگاروں کو آخرت میں اللہ کے عتاب اور عذاب کا خوف نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اللہ نے ان کو اپنے عتاب اور عذاب سے محفوظ رکھا اور نہ ان کو دنیا کے فوت ہو جانے کا غم ہوگا۔

قیامت والے دن جب نفسانفسی کا عالم ہوگا، ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی۔ حتی کہ حقیقی اور خونی رشتے دار بھی ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہونگے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ

اس دن ہر شخص کو ایسی (پریشان کن) حالت لاحق ہوگی جو اسے (ہر دوسرے سے) بے پروا کر دے گیo

(عَبَسَ ، 80 : 37)

یعنی انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، دوست احباب، اولاد سب ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہونگے۔ ہر ایک کو فکر ہوگی کہ آج وہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے عتاب سے بچ جائے تو اس وقت اولیاء اللہ پر کسی قسم کا کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان نیک لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا تھا۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی یاد میں گزرتا تھا، دن رات عبادت میں مشغول رہتے تھے، انسانوں کی خدمت میں لگے رہتے تھے، شریعت کی پابندی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے راضی ہوتا ہے تو اس وجہ سے قیامت  کی ہولناکیوں سے محفوظ ہونگے۔ کسی قسم کا کوئی غم یا خوف نہیں ہوگا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ارشاد ہوا۔

الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَo

سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)o

(الزُّخْرُف ، 43 : 67)

کہ قیامت کے دن دوست احباب ایک دوسرے کے دشمن ہونگے اور اس وقت اگر کسی کی دوستی، صحبت اور سنگت کام آئے گی تو وہ اولیاء اللہ کی ہوگی۔ دنیا کے اندر جس نے بھی اپنا تعلق اولیاء اللہ کے ساتھ قائم رکھا وہ محفوظ ہوگا۔

مگر شرط یہ ہے کہ وہ حقیقتاً اولیاء اللہ ہوں اور اولیاء اللہ وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ولی کی پہنچان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جب دکھائی دیں تو اللہ یاد آ جائے۔

(جامع البيان، رقم الحديث : 13725)

اولیاء اللہ ہر وقت اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں، دنیا کے پیچھے بھاگتے نہیں۔ دنیا سے ان کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انسانیت کی خدمت کرتے ہیں، شریعت کے پابند ہوتے ہیں۔

علامہ تفتازانی لکھتے ہیں، ولی وہ مومن کامل ہے جو عارف باللہ ہوتا ہے، دائمی عبادت کرتا ہے، ہر قسم کے گناہوں سے مجتنب رہتا ہے، لذت اور شہوات میں انہماک سے گریز کرتا ہے۔

قرآن مجید میں جن اولیاء کا ذکر آیا ہے اور جن کو بشارات دی گئی ہیں وہ حقیقتاً شریعت کے پابند ہوتے ہیں، دنیا میں اللہ تعالیٰ کو انہوں نے راضی کر لیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن انہیں کسی قسم کا کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری