کیا انبیاء، صلحاء اور اولیاء اللہ کو پکارنا اور اُن سے مدد مانگنا جائز ہے؟


سوال نمبر:1403
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا ٹھیک ہے ؟ مثال کے طور پر جسے اکثر لوگ کہتے ہیں "یا علی مدد" یا " یا رسول اللّہﷺ" میرا یہ کام ہو جاۓ ؟ کیا یہ الفاظ ٹھیک ہیں ؟

  • سائل: اسلاممقام: الھند
  • تاریخ اشاعت: 14 جنوری 2012ء

زمرہ: استغاثہ و استمداد /نداء یار سول اللہ  |  توسل

جواب:

اَللہ ربّ العزت خالقِ کائنات ہے، قادرِ مطلق اور حقیقی مُستعان ہے۔ کائناتِ اَرض و سماء میں جاری و ساری جملہ اَعمال و اِختیارات کا حقیقی مالک وُ ہی ذاتِ حق ہے، جس کے اِذن سے شب و روز کا سلسلہ وُقوع پذیر ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات میں واحد ہے، یکتا ہے، کوئی اُس کا ہمسر نہیں۔ ارب ہا مخلوقات کو زِندگی عطا کرنے، آنِ واحد میں دی ہوئی حیات کو سلب کرنے اور وسیع و عریض کائناتوں کا نظام چلانے میں، کوئی اُس کا مددگار اور شریک نہیں۔ تمام جہانوں میں تصرّف کرنے والی اور نظامِ حیات کو روز اَفزُوں رکھنے والی ذات فقط اَللہ ربّ العزت کی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر ملکیتِ حقیقی اَللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کو حاصل نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی کسی شے کا از خود مالک نہیں بن سکتا، اِلاّ یہ کہ وہ خود اُسے مالک بنا دے یا تصرّف سے نواز دے، حتیٰ کہ اپنی ذات اور چھ فُٹ کے بدن کے اُوپر بھی کسی فردِ بشر کو حقِ ملکیت حاصل نہیں۔ نفع و ضرر، حیات و ممات اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کا اَز خود کوئی مالک نہیں۔ اَللہ ہی مارتا اور وُہی جِلا بخشتا ہے۔ ہماری ہر سانس اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق اِستعانت و اِستمداد، اِستغاثہ و سوال اور طلب و نداء میں اللہ ربّ العزّت ہی کی ذات مُعین و مُغیث اور حقیقی مددگار ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے بارہا اِرشاد فرمایا کہ مجھ سے طلب کرو میں تمہیں دوں گا۔ پس اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی اِس بنیادی تعلیم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھے کہ اِستغاثہ و اِستعانت اور نداء و طلب میں کوئی مخلوق اللہ ربّ العزت کے اِذن کے بغیر مستقل بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ یقیناًشرک ہے۔ خواہ وہ مدد طلب کرنا عالمِ اَسباب کے تحت ہو یا مافوق الاسباب، دونوں صورتوں میں ایسا شخص مشرک قرار پائے گا۔ جبکہ اِس کے برعکس دُوسری صورت میں اگر مُستعان و مجیبِ حقیقی اللہ تعالی کو مان کر بندہ مجازاً کسی کام کے لئے دوسرے بندے سے رُجوع کرے۔۔۔ ڈاکٹر سے علاج کروائے یا دَم، درُود اور دُعا کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی نیک اور صالح بندے کے پاس جائے تو یہ ہرگز شِرک نہیں بلکہ اِس کا یہ فعل اِختیارِ اَسباب کے ضمن میں آئے گا۔ اَحکامِ اِسلام اور قرآنِ حکیم کی اَبدی اور لازوال تعلیمات کی روشنی میں بندے کی طرف نفع و ضرر اور مِلکیت و تصرّف کی نسبت کرنا محض سبب اور کسب کے اِعتبار سے درست ہے۔ خلق، اِیجاد، تاثیر، علّت اور قوّتِ مطلقہ کے اِعتبار سے مخلوق کی طرف نفع و ضرر کی نسبت قطعی طور پر درست نہیں۔ مخلوق کی طرف موت و حیات، نفع و ضرر، مِلکیت و تصرّف اور اُس کے جملہ کسب کی نسبت حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہوتی ہے اور اِن اُمور میں نسبتِ حقیقی کا حقدار فقط اللہ ربّ العزت کی ذات ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیء کریم ﷺ اپنے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی غزوۂ اُحد میں شہادت پر اِس قدر روئے کہ اُنہیں ساری زِندگی اِتنی شدّت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ فرماتے ہیں کہ سرورِ کائنات ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کے جنازے کو قبلہ کی سمت رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے حتی کہ آپ ﷺ کی ہچکی بندھ گئی۔ پھر سیدنا اَمیرحمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے:

يا حمزةُ! يا عمَّ رسولِ اللہ! و أسدَ اللہ! و أسدَ رسوله! ياحمزةُ! يا فاعلَ الخيراتِ! ياحمزةُ! ياکاشفَ الکُرُباتِ! ياذابّ عن وجه رسولِ اللہ!

(المواهب اللدنية، 1 : 212)

اے حمزہ رضی اللہ عنہ ! اے رسول اللہ کے چچا! اے اللہ کے شیر! اے اللہ کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائی کے کام کرنے والے! اے تکالیف کو دور کرنے والے! اے رسول اللہ کے چہرۂ اَنور کی حفاظت و حمایت کرنے والے!

اِس حدیثِ مبارکہ میں ایک فوت شدہ شخص کے لئے حرفِ ’’يَا‘‘ کے ساتھ نداء کے جواز کے ساتھ ساتھ آنحضور ﷺ کے الفاظ ’’يَا کَاشِفَ الْکُرُبَاتِ‘‘ بھی خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ اِن الفاظ کی ادائیگی میں سرورِ کائنات ﷺ نے صالحین سے اِستغاثہ کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ جس سے اِستغاثہ کیا جائے اُس کا مدد کو پہنچنا بھی جائز گردانا ہے، تبھی تو آپ ﷺ نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو ’’غم کو دُور کرنے والے‘‘ کے پسندیدہ الفاظ سے پکارا۔ یہاں سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا مُستغاث ہونا مجازی معنی میں ہے کیونکہ حقیقی مُستغاث و مُستعان تو محض اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے۔ نبیء کریم ﷺ کا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو مُستغاث قرار دینا اور بعد از وفات اُنہیں حرفِ ’’يَا‘‘ کے ساتھ بلانا ظاہر کرتا ہے کہ اِستغاثہ کے سلسلے میں حقیقی اور مجازی کی تقسیم عین شرعی ہے ورنہ فعلِ رسول ﷺ اِس سے قطعاً مطابقت نہ رکھتا۔

جب انبیاء، اولیاء، صلحاء یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنیٰ حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے لئے خاص ہے۔

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میں اِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔

عقائدِ اِسلامیہ کی تعبیر وتوجیہہ کے باب میں اَسلاف اَئمۂ کرام میں سے اِمام اِبنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو متنازع گردانا جاتا ہے، جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اُن کا عقیدہ نہایت اِعتدال پر مبنی ہے اور اگر موجودہ دَور میں اُس کی کما حقّہ غیرجانبدارانہ تعبیر و تشہیر کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ دونوں اِنتہاؤں پر جا پہنچنے والے مسالِک کو باہم قریب کیا جا سکے۔ سرِدست صورتحال کچھ یوں ہے کہ عقائدِ اِسلامیہ میں اپنی کج فہمی کی بناء پر بِدعات داخل کرنے والا گروہ اِمام اِبنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا مَن گھڑت تصوّر پیش کر کے اُن سے اپنے خود ساختہ عقائد کی بے جا تائید حاصل کر رہا ہے جبکہ صحیح اِسلامی عقیدے پر کاربند کم پڑھے لکھے اَفرادِ اُمت حقائق سے عدم آگہی کے باعث اِمام اِبن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو غیراِسلامی عقیدے کا حامل سمجھنے لگ گئے ہیں۔

اِمام اِبن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے، اور وہ یہ کہ ’’اللہ ربّ العزّت ایک ہے، اُس کا کوئی ثانی نہیں۔ فقط اُسی کی عبادت رَوا ہے، اُسی سے دُعا کرنی چاہئیے اور اُسی کو حقیقی مُستعان سمجھنا چاہئیے۔ اُسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئیے اور مشکل وقت میں اُسی سے مدد مانگنی چاہئیے۔ غیراللہ کو مددگارِ حقیقی سمجھنا اِسلام کے دائرے سے خروج کے مُترادِف ہے۔ فقط اللہ نیکی کی توفیق سے نوازتا اور گناہوں کو معاف کرنے پر قُدرت رکھتا ہے۔ اُس کے علاوہ کوئی اَز خود کسی کو گناہ سے روک سکتا ہے اور نہ نیکی کی توفیق دے سکتا ہے۔ اَنبیاءے کرام اور اَولیاء اللہ سے مدد صرف اُنہیں مستعانِ مجازی مانتے ہوئے ہی جائز ہے‘‘۔ یہی عین اِسلامی عقیدہ ہے اور اِس سے سرِمُو اِنحراف عقائدِ باطلہ کی طرف رُجحان کا باعث ہو گا۔ مزید وضاحت کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت‘ ملاحظہ کیجیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔