کیا علم کو عمل پر فوقیت حاصل ہے؟


سوال نمبر:137
کیا علم کو عمل پر فوقیت حاصل ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

علم اور عمل دونوں اپنی جگہ اہم ہیں۔ بعض لوگ علم کو عمل پر فوقیت دیتے ہیں اور بعض عمل کو علم پر۔ تصوف اور فقر کی بات کرنے والے عمل کو علم پر فوقیت دیتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

علم اور عمل کو ایک دوسرے پر فوقیت دینے والے دونوں نظریات باطل ہیں اور حق یہ ہے کہ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت اس لیے نہیں دی جا سکتی کہ علم عمل کے بغیر بے کار ہے اور عمل بغیر علم کے ناقص، کیونکہ عمل تبھی ہو گا جب اس کے پیچھے علم کارفرما ہو۔ عمل کرنے والے کو علم سے پتا چلتا ہے کہ اس عمل سے یہ ثواب یا درجہ ملے گا اسی طرح نماز اور اس کی صحت کو اس وقت تک جاننا نا ممکن ہے جب تک کہ نماز پڑھنے والا احکامِ طہارت کا علم نہ حاصل کرے۔ جب تک پانی کے پاک ہونے کا علم نہ ہو، وضو صحيح نہیں ہو سکتا۔ قبلہ کی سمت کا اگر علم نہ ہو نماز بے کار ہے، اسی طرح اگر ارکان نماز کا علم نہیں تو نماز کہاں درست ہو سکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عمل علم سے قریب ہوتا ہے، علم کو عمل سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علم کا وجود بغیر عمل اور عمل کا وجود بغیر علم کے لغو اور باطل ہے۔

 داتا علی هجويری رحمة الله عليه، کشف المحجوب : 14

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔