جمعہ کی سنتیں چھوڑ دینے کا شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:1295
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ ۔ 1۔ نماز جمۃالمبارک میں عام طور سے 14 رکعتیں [ 4 سنت، 2 فرض ، 4 سنت ، 2 سنت ، 2 نفل ] پڑھی جاتی ہیں ، مگر یہان اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ صرف فرض پڑھ کر چلے جاتے ہیں [گو کہ کچھ لوگ گھر جا کر باقی نماز ادا کر لیتے ہیں، مگر بہت سے لوگ سنتیں چھوڑ دیتے ہیں] ۔ اس طرح جمعہ کی سنتیں چھوڑ دینے کا شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ 2۔ بہت سے لوگ جمعہ کی نماز کیلئے اس وقت پہنچ پاتے ہیں ، جب خطبہ جمعہ آدھے سے زیادہ ہو چکا ہوتا ہے ، یا بالکل ختم ہو چکتا ہے، تو لوگ آتے ہی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ ایسے لوگوں کو احتیاطاً ظہر کے چار فرض بھی ادا کرنے چاہیئیں ، اس بارے میں وضاحت فرما دیں کہ کن کن صورتوں میں احتیاطی ظہر ادا کرنی لازم ہے ، اور رکعتوں کی ترتیب کیا ہوگی؟ شکریہ ، جزاک اللہ۔ والسلام ۔

  • سائل: محمد اکرممقام: جدہ ، سعودی عرب
  • تاریخ اشاعت: 26 دسمبر 2011ء

زمرہ: نماز  |  نماز کی سنتیں  |  نماز جمعہ

جواب:

جمعہ والے دن نماز جمعہ سے پہلے چار، فرضوں کے بعد چار اور پھر دو، کل چھ رکعات سنتیں ہیں، پہلے والی چار ملائیں تو جمعہ کی 10 سنتیں ہیں۔ یہ تمام سنتیں موکدہ ہیں، یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جن میں اللہ کے فضل سے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، لہذا وہ نہیں چاہتا کہ کسی ایک مسئلہ میں بھی مسلمان متحد و متفوق رہیں۔ شیطانی مشن ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف، افتراق اور ذہنی انتشار پھیلایا جائے اور دشمن سے اس کے سوا توقع بھی کیا ہو سکتی ہے؟

جمعہ کی سنتوں کا ثبوت

ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال من رکع اثنتی عشرة رکعه، بنی له بيت فی الجنة،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے (جمعہ کے دن) بارہ رکعات نماز ادا کی، اس کےلیے جنت میں گھر تعمیر ہوگا۔

عن عطاء انه رای ابن عمر يصلی بعد الجمعة قالفی نماز قليلا عن مصلاة فيرکع رکعتين ثم يمشی انفسی من ذلک ثم يرکع اربع رکعات.

حضرت عطا نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا، اپنی جگہ سے ذرا ہٹ کر، دو رکعت ادا کیں۔ پھر وہاں سے دور جا کر چار رکعات ادا کیں۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، جب نماز جمعہ سے فارغ ہوئے، اپنے جائے نماز سے کچھ آگے ہوئے اور

فرکع رکعتين ثم تقدم ايضا فرکع اربعا.

پھر دو رکعات ادا کیں، پھر مزید آگے بڑھ کر چار رکعات نماز ادا کی۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے :

کان يصلی قبل الجمعة اربع رکعات و بعدها اربع رکعات قال ابو اسحاق کان علی يصلی بعد الجمعة ست رکعات.

جمعہ سے پہلے چار رکعات، نماز جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے، ابو اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جمعہ کے بعد چھ رکعات ادا کرتے تھے۔

عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں حکم دیتے تھے کہ

ان يصلی قبل الجمعة اربعا و بعدها اربعا. حتی جاء نا علی فامرنا ان نصلی بعدها رکعتين ثم اربعا.

کہ ہم جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھیں اور بعد میں بھی چار۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بعد میں دو رکعتیں پڑھ کر پھر چار رکعتیں ادا کریں۔

(باب الصلوٰة قبل الجمعه وبعدها، مصنف عبدالرزاق، 3 : 246-248)

عن ابی هريرة رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من کان منکم مصليا بعد الجمعة فليصل اربعا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو نماز جمعہ کے بعد نماز پڑھے، وہ چار رکعات ادا کرے۔

(سنن ترمذی، 1 : 69)

سالم عن ابيه عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه کان يصلی بعد الجمعة رکعتين.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعات ادا فرماتے تھے۔

(ترمذی، 1 : 68)

عن عبدالله بن مسعود رضی الله عنه کان يصلی قبل الجمعة اربعا و بعدها اربعا، وروی عن علی بن ابی طالب انه امر ان يصلی بعد الجمعة رکعتين ثم اربعا.

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ سے پہلے بھی چار رکعات پڑھتے تھے اور بعد میں بھی۔ اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھی جائیں، پھر چار۔

(سنن نسائی، 1 : 201، سنن ابن ماجه، 1 : 79، جامع ترمذی، 1 : 69، سنن ابی داؤد، 1 : 167)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اذا صليتم بعد الجمعة فصلوا اربعا.

جب نماز جمعہ کے بعد نماز پڑھو تو چار رکعات پڑھا کرو۔

(صحيح مسلم، 1 : 288)

ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان يصلی بعد الجمعة رکعتين.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

(صحيح بخاری، 1 : 128، صحيح مسلم، 1 : 286)

فقہائے کرام :

فهذا البحث يفيد ان السنة بعدها ست.

اس بحث سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے بعد چھ سنتیں ہیں۔ اور نماز جمعہ سے پہلے چار۔

(فتح القدير، 2 : 39، المغنی و الشرح الکبير لابن قدامه، 2 : 210، 220، البحر الرائق، 2 : 49، فتاویٰ عالمگيری، 1 : 112، رد المختار شرح درالمختار للشامی، 2 : 13، بدائع الصنائع، 1 : 23، کتاب الفقه علی المذاهب الاربعه للجزری، 1 : 327)

عن ابی يوسف انه ينبغی ان يصلی اربعا ثم رکعتين ....... والافضل عندنا ان يصلی اربعا ثم رکعتين.

یہ ہیں جمعہ کی پہلی اور پچھلی کل سنتیں جو الحمدللہ ہم نے کثیر کتب حدیث و فقہ سے با دلیل و حوالہ پیش کر دی ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جس طرح نمازیں ادا کر رہے ہیں، کرتے رہیں۔ فرائض بھی، واجبات بھی اور سنن و نوافل بھی اور کسی شیطانی آواز پر کان نہ دھریں، شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے، وہ نیکیوں سے روکتا ہے، گناہوں کی ترغیب دیتا ہے۔ مسلمان اپنے رب، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بزرگان دین سلف کے راستے پر چلتے رہیں۔ یہی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے اور یہی جنت کا راستہ ہے۔ جو شیطانوں کے چکر میں پھنس گیا جہنم رسید ہوا۔ اللہ تعالیٰ شیطانی شر سے بھی بچائے اور نفسانی سے بھی۔ آمین

جمعہ کا خطبہ، نماز جمعہ کے لیے شرط ہے۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عمر بھر کوئی بھی جمعہ خطبہ کے بغیر نہیں پڑھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو خطبے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔

امام محمد فرماتے ہیں کہ خطبہ، نماز کی طرح ہے، لہذا اس کو خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے اور کلام کرنا مکروہ ہے، بلاعذر خطبہ ترک کرنا گویا سنت کو ترک کرنا ہے اور سنت موکدہ کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا گہنگار ہوگا۔ اور اس کا جمعہ تو ہو جائے گا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔

احتیاطی ظہر کہنا غلط ہے، یہ کوئی اصطلاح نہیں ہے، فتاویٰ رضویہ میں لکھا ہے کہ نماز جمعہ کے بعد جو احتیاطی فرض پیش پڑھے جاتے ہیں، یہ نہیں پڑھنے چاہیں، عام لوگوں کو احتیاطی ظہر کی کچھ ضرورت نہیں۔

(فتاویٰ رضويه، 8 : 278)

جمعہ کا خطبہ پڑھنا اور سننا دونوں فرض ہیں۔ لیکن شریعت نے اس میں تخفیف رکھی ہے جیسے بہت ساری عبادات میں رکھی ہے، مثلاً تکبیر تحریمہ کہنا، فاتحہ پڑھنا، لیکن تخفیف رکھی ہے اگر کوئی لیٹ ہو جاتا ہے اور سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، تو تب بھی اس کی نماز ہو جاتی ہے، اسی طرح جمعہ کا خطبہ کا حکم ہے، البتہ اسے معمول نہیں بنانا چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی