کیا آن لائن فاریکس ٹریڈنگ جائز ہے؟


سوال نمبر:1153
کیا آن لائن فاریکس ٹریڈنگ جائز ہے؟ اس میں کرنسیوں کے علاوہ سونا، چاندی، سلور، آئل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس میں سارا کام انٹرنیٹ پر ہوتا ہے۔ اس میں کرنسیوں کے جوڑے یا اوپر بیان کردہ دھاتوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور اسی پر نفع و نقصان کا تعین ہوتا ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے، مہربانی فرما کر جلد جواب ارشاد فرمائیں۔

  • سائل: غلام عباسمقام: گجرات، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 13 اگست 2011ء

زمرہ: آن لائن کاروبار/ ای-کامرس

جواب:

شرعی احکامات کے مطابق خریدار کا خریدی ہوئی شے پر قابض ہونا ضروری ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من اتباع طعاماً فلا يبعه حتی يقبضه.

(صحیح مسلم، 2 : 13)

جس نے کسی سے طعام (یا کوئی اور شے) خریدی تو اس وقت تک آگے فروخت نہ کرے جب تک اس پر قبضہ نہ حاصل کر لے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

واحسب کل شيء بمنزلة الطعام.

اور میرے خیال میں ہر فروخت کی جانے والی شے بمنزلہ طعام ہے (یعنی خریدار کے لیے مال کو دیکھنا و پرکھنا اور اس پر قابض ہونا ضروری ہے)۔

آج کے جدید دور میں خرید و فروخت کے طریقہ کار تبدیل ہوگئے ہیں۔ لوگ دوسرے ممالک سے مال درآمد کرتے ہیں اور اپنے ملک میں مال لا کر دوسرے لوگوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں اگر وہ مال کو اپنے قبضے میں کرنے کے بعد فروخت کریں تو ترسیل مال پر بہت زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں اور مال کو اسٹور کرنے کے لیے بھی وافر جگہ پر مشتمل گودام درکار ہوتے ہیں۔ جیسے گلگت کا رہنے والا کوئی تاجر یورپ سے اشیائے صرف درآمد کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کا مال کراچی کی بندرگاہ پر آئے گا۔ اب اگر وہ سارا مال پہلے گلگت منگوائے اور بعد میں اسے فروخت کرنے کے لیے حیدر آباد، خان پور، راولپنڈی، پشاور اور لاہور وغیرہ بھیجے تو بے پناہ اخراجات اٹھیں گے، جن سے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔

لہٰذا اندریں حالات بہتر یہ ہے کہ خریدار / درآمد کنندہ مال پر اگر ایسا تصرف رکھتا ہو کہ جسے چاہے اور جس وقت چاہے فروخت کر سکے اور جہاں چاہے لے جا سکے تو ایسی خرید و فروخت قبضہ کے حکم میں ہو کر جائز ہوگی۔ چاہے یہ خرید و فروخت انٹرنیٹ یا فیکس کے ذریعے کی جائے یا کسی اور ذریعے سے۔

لیکن اگر انٹرنیٹ کے ذریعے ہونی والی خرید و فروخت اس طرح سے ہو کہ خریدار کو مال کے بارے میں بالکل علم نہ ہو اور وہ اس پر اختیار بھی نہ رکھتا ہو یعنی ساری خرید و فروخت ہَوا میں ہی ہو اور زمین پر اس کا کوئی وجود نہ ہو، بس روپے کو روپے سے ضرب دینے کا گورکھ دھندا ہی ہو تو ایسی تجارت شرعاً جائز نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان