احسان و تصوف کے قواعد و ضوابط کا تابعین کے معمولات زندگی سے کہاں تک تعلق ہے؟


سوال نمبر:112
احسان و تصوف کے قواعد و ضوابط کا تابعین کے معمولات زندگی سے کہاں تک تعلق ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے زیر اثر تابعین میں بھی تصوف و احسان کے جملہ اصول و ضوابط بدرجہ اتم موجود تھے۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو ان کے بلند درجہ معمولاتِ احسان و تصوف کی بنا پر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غائبانہ طو رپر خیر التابعین کا لقب عطا ہوا۔

 مسلم، الصحيح : 1088 رقم : 224، کتاب الفضائل، باب فضائل اويس قرنی رضی الله عنه

آپ رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو کثرتِ عبادت کرتے۔ حلقہ ذکر میں شرکت فرماتے، زہد و ورع کا یہ عالم تھا کہ گھر بار، کھانے پینے بلکہ تمام دنیاوی چیزوں سے بے نیاز تھے۔ گرد آلود بال دیکھ کر بچے مذاق اڑاتے، پتھر مارتے مگر آپ کے عالم کيف و مستی اور بے خودی میں فرق نہ آتا۔

1. شيخ عبدالقادر جيلانی رضی الله عنه، عنية الطالبين : 907
2. فريد الدين عطار، تذکرة الاولياء : 8 - 9

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جو معتبر تابعی تھے۔ فرماتے ہیں :

’’کچھ لوگ اللہ کی عبادت خوف سے کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے، کچھ لوگ لالچ سے عبادت کرتے ہیں، یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم اللہ کی عبادت شکر کے طور پر کرتی ہے یہ آزاد بندوں کی عبادت ہے۔‘‘

 ابن الجوزی، صفةالصفوة : 67

آپ رضی اللہ عنہ زہد و عبادت کا پیکر تھے۔ شبانہ روز ایک ہزار نوافل پڑھتے اور آخر دم تک اس معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ اسی عبادت و زہد کی بنا پر آپ کا لقب زین العابدین مشہور ہو گیا۔

 ابن الجوزی، صفة الصفوة : 71

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے زہد و ورع کا عالم یہ تھا کہ ہر وقت چہرے سے رنج و غم کی کيفیت عیاں ہوتی، خشیت الٰہی کا غلبہ اس قدر تھا کہ ہر آن لرزہ براندام رہتے۔ یونس بن عبید رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ آتے تو معلوم ہوتا کہ اپنے کسی عزیز کو دفنا کر آ رہے ہیں۔ جب بیٹھتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ایسے قیدی ہیں جن کی گردن مارے جانے کا حکم دیا جا چکا ہے اور جب دوزخ کا ذکر کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا کہ دوزخ صرف انہی کے لئے بنائی گئی ہے۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ’’جس قدر دنیا جمع ہو گی اسی قدر تیرے دل سے آخرت کا فکر نکل جائے گا‘‘۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں ’’بدن کے لئے غذا دنیا سے حاصل کرو اور دل کے لئے غذا آخرت سے لو‘‘۔

 امام غزالی، مکاشفة القلوب : 238

مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے ایک آدمی نے پوچھا تباہی کس چیز میں ہے؟ فرمایا : مردہ دلی میں۔ عرض کیا : مردہ دلی کیا ہے؟ فرمایا دنیا کی رغبت۔

 فريد الدين عطار رحمة الله عليه، تذکرة اولياء : 13

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔