میاں بیوی کی مشترکہ ملکیت کی صورت میں‌ زکوۃ کا نصاب کتنا ہوگا؟


سوال نمبر:1036
ہمارے ملک میں شادی کے موقع پر دلہن کو کچھ زیور لڑکے والوں کی طرف سے دیا جاتا ہے اور کچھ لڑکی والے خود تیار کرتے ہیں۔ کہنے کو تو وہ زیور عورت کی ملکیت ہوتا ہے مگر عملا وہ زیور صرف عورت کی ملکیت تصور نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اسے فروخت کرنے کا حق نہیں رکھتی۔

دوسری طرف شوہر بھی عورت کو اعتماد میں لئے بغیر اس زیور پر حقِ ملکیت نہیں جتا سکتا۔ گویا عملا وہ زیور میاں بیوی دونوں کی مشترکہ ملکیت میں رہتا ہے اور جب کبھی اسے فروخت کرنے کی ضرورت پڑے دونوں مل کر ہی اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ایسی صورت میں اگر اس زیور کی مقدار بالفرض 10 تولے ہو تو کیا میاں بیوی میں سے کسی ایک پر یا دونوں پر اس کی زکوۃ فرض ہوگی؟ یا دونوں کا حصہ پانچ پانچ تولے تصور کیا جائے گا اور وہ صاحب نصاب قرار نہیں پائیں گے؟

اسی طرح اگر میاں بیوی نے مل کر بینک میں‌ جوائنٹ اکاؤنٹ کھلوا رکھا ہو تو کیا اس کا نصاب ساڑھے سات تولے سونے کے مساوی رقم ہوگی یا پندرہ تولے؟

  • سائل: فرید علیمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 16 جون 2011ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:
صورت مذکورہ میں اگر پہلے سے یہ طے ہو گیا ہے کہ زیور عورت کے لیے ہے تو اس صورت میں یہ عورت کی ملکیت ہوگا اور زکوۃ، قربانی اور فطرانہ وغیرہ دینا عورت پر لازم ہوگا۔

اگر یہ طے ہوا ہے کہ زیور لڑکے کا ہے، صرف پہننے کے لیے عورت کو دیا جارہا ہے تو پھر لڑکے پر احکام لاگو ہونگے یعنی کہ جس کی ملکیت ہو گی زکوۃ اس پر واجب ہوگی۔

اگر ملکیت عورت کی ہے صرف احسان کے طور پر وہ زیور فروخت کرتے وقت شوہر سے مشورہ کرتی ہے یا شوہر کو ضرورت ہو اور وہ اپنا زیور اس کو دیتی ہے تو یہ احسان ہے، ملکیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح اگر کوئی چیز مشترکہ ہے اور کسی کا حصہ نصاب تک پہنچ جاتا ہے تو ہر ایک اپنے اپنے حصے کی زکوۃ ادا کرے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان