اوجھری کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:1013
اوجھری کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اعلیٰ حضرت کا اس بارے میں‌ کوئی فتویٰ ہے؟

  • سائل: محمد اکرممقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 27 مئی 2011ء

زمرہ: خور و نوش

جواب:
حلال جانور کے سات اجزاء نص حدیث سے ممنوع ہیں۔ حدیث پاک میں ہے :

ما يحرم اکله من اجراء الحيوان سبعة الدم المسفوح والذکر و الانثيان، والقبل والغده والمثانه، والمرارة.

فتاوی عالمگيري، ج : 5، ص : 290
بدائع الصنائع، ج : 5، ص : 61

جانوروں کے سات اجزاء کھانا حرام ہے۔ 1۔ بہتا ہوا خون، 2۔ آلہ تناسل، 3۔ خصیے، 4، پیشاب کی جگہ (فرج)، 5۔ گلٹی، 6۔ مثانہ، 7۔ پتہ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مثانہ پیشاب ٹھہرنے کی جگہ ہے اور اوجھری پاخانہ (غلاظت) کی جگہ ہے۔ پیشاب نجاست خفیفہ ہے اور پاخانہ نجاست غلیظہ ہے، لہذا جس طرح مثانہ مکروہ تحریمی ہے اسی طرح اوجھری آنتیں بھی مکروہ تحریمی ہیں۔

فتاوی رضويه، ج : 20، ص : 238

دیگر فقہاء کے نزدیک اوجھری صرف طبعی کراہت کی وجہ سے مکرہ ہے، یعنی کراہت کےساتھ جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان