جواب:
زوجین باہمی رضامندی سے جتنی مدت تک چاہیں ایک دوسرے سے دور رہ سکتے ہیں، اسلام نے اس سلسلے میں کوئی حدود و قیود مقرر نہیں کیے اور نہ زوجین کو مخصوص مدت کے اندر اکٹھے ہونے یا مباشرت کرنے کا پابند کیا ہے۔ زوجین ایک دوسرے جتنا عرصہ بھی دور رہیں، اس سے اُن کے رشتہ ازدواج پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شوہر اپنی بیوی کی رضامندی سے اور بیوی اپنے شوہر کی رضامندی سے جتنا عرصہ چاہے دور رہ سکتی ہے۔ لیکن اگر شوہر قسم کھا لے کہ میں اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا اور پھر چار مہینے کی مدت تک ان کی صلح یا رجوع نہ ہوپائے تو ’ایلاء‘ ہو جاتا ہے جس سے طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے اور رجوع کے لیے تجدیدِ نکاح لازم ہوتا ہے۔ ایلاء سے ہی استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے فرمایا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر زیادہ سے زیادہ چار ماہ کی مدت تک اُس سے دور رہ سکتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.
اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر انہوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کر لیا ہو تو بیشک اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
البقرہ، 2: 226-227
درج بالا آیت سے واضح ہوا کہ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ چار ماہ سے زائد مدت تک بیوی کے حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں تاخیر کرے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ آپ رات کے وقت گشت کر رہے تھے تو ایک گھر سے ایک عورت کی آواز آرہی تھی اور وہ کچھ اشعار پڑھ رہی تھی۔ مفہوم یہ تھا کہ اس کا شوہر گھر سے کہیں دور چلا گیا تھا اور وہ اسکے فراق میں غمزدہ تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھر آئے اور اپنی زوجہ سے دریافت کیا کہ شادی شدہ عورت شوہر کے بغیر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے تو زوجہ نے جواب دیا کہ تین سے چار ماہ۔ آپ نے حکم جاری کر دیا کہ ہر فوجی کو چار ماہ بعد ضرور چھٹی دی جائے تاکہ ہر فوجی اپنی بیوی کا حق ادا کر سکے۔
(تاریخ الخلفاء: 142)
اس لیے علمائے کرام نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر شوہر بغیر کسی عذر کے چار ماہ تک بیوی کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرتا تو بیوی کو مطالبۂ طلاق اور معاملۂ خلع کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ ملازمت یا روزگار کے سلسلے میں یا کسی بھی دوسری غرض سے اہلِ خانہ سے دور رہائش پذیر افراد‘ جن کے لیے اہلِ خانہ کو اپنے ساتھ رکھنا ممکن نہیں‘ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ چار ماہ کی مدت میں اہلِ خانہ کے پاس جائیں۔ اگر بوجوہ ایسا ممکن نہ ہو فریقِ ثانی کی رضامندی، زوجین کے فتنے میں پڑنے کا اندیشوں اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے متعلق ضروری اقدامات کو یقینی بنائیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔