جواب:
زیرِ ناف بالوں کو صاف کرنا فطری تقاضا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ان بالوں کو ہفتے میں ایک بار صاف کرنا مستحب عمل ہے، لیکن چالیس دن سے زائد مدت تک ان بالوں کو صاف نہ کرنا باعثِ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت کیلئے ملاحظہ کیجیے: چالیس ایّام سے زائد عرصے تک زیرِناف بال صاف نہ کرنے والے کی نماز کا کیا حکم ہے؟
اگر کوئی مرد یا عورت بیماری یا ضعف کی وجہ سے اپنے زیرِناف بال صاف کرنے سے قاصر ہے تو اس کا شریکِ حیات یعنی اگر مریض مرد ہے تو اس کی زوجہ اور اگر مریضہ عورت ہے تو اس کا زوج اس کے زیرِ ناف بال صاف کر سکتا ہے۔ اگر مریض کا شریکِ حیات موجود نہیں ہے تو مرد مریض کا بھائی یا بیٹا شرم گاہ پر نظر ڈالے بغیر کسی کریم یا آلہ وغیرہ سے ان کے زیر ناف بال صاف کرسکتے ہیں۔ یہی حکم مریضہ کی بہن اور بیٹی کے لیے ہے کہ وہ کریم یا آلہ وغیرہ سے مریضہ کے بال صاف کرسکتی ہیں۔ فقہاء کرام نے مجبوری میں ستر کھولنے کی اجازت دی ہے، جیساکہ امام سرخسی فرماتے ہیں:
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ إذَا كَانَ بِهِ هُزَالٌ فَاحِشٌ وَقِيلَ لَهُ: إنَّ الْحُقْنَةَ تُزِيلُ مَا بِك مِنْ الْهُزَالِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُبْدِيَ ذَلِكَ الْمَوْضِعَ لِلْمُحْتَقِنِ وَهَذَا صَحِيحٌ فَإِنَّ الْهُزَالَ الْفَاحِشَ نَوْعُ مَرَضٍ يَكُونُ آخِرُهُ الدِّقَّ وَالسُّلَّ.
السرخسي، المبسوط، ج: 10، ص: 156، بيروت: دار المعرفة
’’امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ جس کو غایت درجہ کی کمزوری ہو اور اس کو بتایا جائے کہ حقنہ اس کی کمزوری کا ازالہ کر سکتا ہے تو اس کے لیے مضائقہ نہیں کہ حقنہ کرنے والے کے لیے اس جگہ (ستر) کو کھول دے اور یہ صحیح رائے ہے، کیونکہ سخت کمزوری بھی ایک مرض ہے جس کی انتہا دق اور سل کے امراض پر ہوتی ہے۔‘‘
اس لیے بیمار، معذوری یا ضعف العمری کی وجہ سے کوئی شخص زیرِ ناف بال صاف کرنے سے عاجز آ جائے تو مرد کیلئے بھائی یا بیٹا اور عورت کیلئے بہن یا بیٹی اس کے بال صاف کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنے کیلئے انہیں ستر چھپانے کے حکم سے رخصت ہوگی، اس لیے کہ زیرِناف بالوں کی صفائی پاکیزگی کیلئے ضروری ہے، اس سے کوئی رخصت نہیں ہے۔ ممکن ہے دورِ حاضر میں طبِ جدید نے کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہو جس سے ان بالوں کو مستقل ختم کیا جاسکتا ہو، اگر ایسا کوئی طریقہ موجود ہے اور وہ مضرِ صحت بھی نہیں ہے تو اسے اختیار کیا جاسکتا ہے تاکہ بار بار ستر نہ کھولنا پڑے۔ اگر کوئی ایسا طریقہ میسر ہو تو اسے اختیار کرنا بھی شرعاً درست ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔