جواب:
سرِ امام حسین علیہ السلام کا نیزے پر تلاوت کرنا روایات سے ثابت ہے جبکہ یہ روایات اہل سنت کی معتبر کتابوں میں نقل کی گئی ہیں۔ جیسا کہ حوالہ جات کے ساتھ دو روایات درج ذیل ہیں:
عَنِ الْمِنْهَالِ بْنُ عَمْروِ قَالَ: أَنَا وَاللهِ رَأَيْتُ رَأْسَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ حِيْنَ حَمْلِ وَأَنَا بِدِمَشْقٍ وَبَيْنَ يَدَيْ الرَّأْسَ رَجُلٌ يَقْرَأُ سُوْرَةَ الْكَهْفِ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ تَعَالَى: (أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا) قَالَ فَأَنْطَقَ اللهُ الرَّأْس بِلِسَانِ ذَرَبِ فَقَالَ أَعْجَبُ مِنْ أَصْحَابِ الْكَهْفِ قَتْلِيٌّ وَحَمْلِيٌّ.
منھال بن عمرو سے روایت ہے کہ اس نے کہا: خدا کی قسم میں نے حسین بن علی کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ وہ سر سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا حتی کہ باری تعالیٰ کے اس فرمان پر پہنچا: (أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا) وہ کہتا ہے کہ اس آیت کے فوری بعد سر نے واضح اور بلیغ زبان میں کہا کہ اصحاب کہف سے زیادہ عجیب میرا قتل ہونا اور میرے سر کو نیزے پر اٹھانا ہے۔
(ابن عساكر، تاريخ مدينة ودمشق، 60: 370، بيروت: دار الفكر- ابن منظور المصري مختصر تاريخ دمشق، 3: 362، بيروت: دار الفكر- صلاح الدين الصفدي، الوافي بالوفيات، 15: 205، بيروت: دار إحياء التراث- جلال الدين السيوطی، الخصائص الكبرى، 1: 216، بيروت: دار الكتب العلمية- جلال الدين السيوطی، شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، 1: 210، لبنان دار المعرفة- الصالحي الشامی، سبل الهدى والرشاد 11: 76، بيروت، لبنان: دار الكتب العلمية- عبد الرؤوف المناوي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، 1: 205، مصر: المكتبة التجارية الكبرى)
ایک اور روایت جس میں سلمہ بن کھیل نے بیان کیا:
رَأَيْتُ رَأْسَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى الْقَنَا وَهُوَ يَقُولُ (فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)
میں نے حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے وہ یہ آیت پڑھ رہا تھا (فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ) .
(ابن عساكر، تاريخ مدينة ودمشق، 22: 117)
سر بریدہ امام حسین علیہ السلام سے قرآن مجید کی تلاوت جاری ہونا محال نہیں ہے۔ مولیٰنا محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمة اللہ علیہ یہ حِکایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
در حقیقت بات یِہی ہے کیونکہ اَصحابِ کَہف پر کافِروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام کو ان کے نانا جان ﷺ کی اُمّت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا! اٰل و اَصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک علیہ السلام کے سامنے شہید کیا۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام کو شہید کیا، اہلبیتِ کِرام علیہم الرضوان کو اَسیر بنایا، سرِ مبارَک کو شہر شہر پھرایا۔ اَصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضَرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔
مرادآبادی، سوانحِ کربلا، ص: 118
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔