Fatwa Online

کیا دیور کی جائیداد سے بھابھی حصہ پاتی ہے؟

سوال نمبر:5799

السلام علیکم میری ماں اور میرا بھائی میرے چچا کو بہت مارپیٹ کرتے تھے چچا نے ان کے خلاف پولیس سٹیشن میں درخوست بھی دی تھی مگر جان چھڑانے کی خاطر انہوں نے گلشن اقبال والا فلیٹ بیچ دیا، اسکا حصہ بھی بھائی نے اپنے حساب سے لگایا۔ میری ماں کا میرے چچا کے فلیٹ میں کوئی حصہ نہیں بنتا تھا پھر بھی بھائی نے ماں کو حصہ دلایا۔ اب میں کورٹ میں کیس کرنے جا رہی ہوں۔ آپ سے سوال ہے کہ یہ حصہ غلط لیا گیا ہے یا درست؟ چچا کا انتقال ہو گیا ہے، آپ سے فتویٰ درکار ہے۔

سوال پوچھنے والے کا نام: حنا ذیشان

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 28 اکتوبر 2020ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

اگر سائلہ کی والدہ کا حصہ چچا کی جائیداد میں نہیں بنتا تھا تو سائلہ کے بھائی نے انہیں یہ حصہ دلوا کر غلط کیا اور سائلہ کی والدہ نے ناحق یہ حصہ لیکر غلط کیا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کا ناحق مال لینے سے منع کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ.

اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔

البقره، 2: 188

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا.

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

النساء، 4: 29

اگر سائلہ کے بھائی اور والدہ نے چچا کی جائیداد کے حصوں میں ڈنڈی ماری ہے تو مذکورہ بالا احکامِ الٰہیہ کے مطابق وہ گناہگار ہیں اور بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ انہیں اس کا ازالہ کرنا چاہیے تاکہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں سرخرو ہوسکیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 April, 2024 06:38:16 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5799/