Fatwa Online

کیا سرکاری کام میں مدد پر کمیشن لینا جائز ہے؟

سوال نمبر:5708

السلام علیکم مفتی صاحبان! میرا سوال یہ ہے کہ میں بطور سرکاری ملازم ریٹائر ہوا ہوں، اب چاہتا ہوں کہ باقی ملازمین جو ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں ان کے لیے کمیشن پر کام کروں یعنی اس کے پینشن کے کاغذات کی تیاری سے لیکر ان کو پیسے دلوانے تک تمام مراحل میں ادا کروں جس کے بدلے میں ان سے کمیشن لوں۔ اس کام میں میری درج ذیل ذمہ داریاں ہونگی: کاغذات کی تیاری اور متعلقہ دفاتر سے منظوری لینا اور ادائیگی کا چیک متعلقہ ملازم تک پہنچانا یا ڈائرئکٹ اس کے بینک اکاونٹ میں پیسے شفٹ کرنا۔ یہ تمام کاروائی کرتے ہوئے مجھے تمام دفاتر میں کسی میں کم کسی میں ذیادہ رشوت دینا پڑنی ہے، یاد رہے کہ بغیر رشوت کہ یہ کام کرانہ ممکن نہیں‘ چاہیے وہ خود ہی لے جائے۔ میں نے سنا ہے کہ رشوت زنا سے بھی برا گناہ ہے تو کیا میرے لیے کمیشن پر یہ کام رشوت دیکر کرانا جائز ہے؟ یاد رہے کہ اب تک میں نےگناہ کے ڈر سے کام شروع نہیں کیا، لیکن میرے دوست وغیرہ کہتے ہیں کہ رشوت تو اس نے لازمی لینی ہے چاہے جو بھی جائے، یعنی جو رشوت لیتے ہیں ظالم ہیں اور چونکہ اور کوئی راستہ نہیں اس لیے آپ کے لیے جائز ہے۔ رہنماہی فرمائیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: نور محمد

  • مقام: کوئٹہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 08 جولائی 2020ء

موضوع:رشوت

جواب:

جو ملازم ریٹائر ہوتا ہے اس کی فائل تیار کرنا محکمے کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن کرپٹ افسران کی وجہ سے رشوت کے بغیر یہ کام نہیں ہوتا جو کہ افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ہر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جب کسی کا م کے لئے رشوت دینے کا معاملہ در پیش ہو تو ایک عام انسان کو کس قدر دقتوں کا سامنا ہوتا ہے اور کوئی بھی اپنی خوشی سے رشوت نہیں دیتا۔ شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں صرف رشوت لینا ہی قابلِ مواخذہ نہیں ہے بلکہ رشوت دینا بھی قابل مواخذہ اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رشوت لینے اور دینے والوں کو جہنم کا یندھن بتایا۔ اسی طرح رشوت دلوانے والا بھی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ملعون ہے۔

مسئلہ ہذا میں بھی جو مجبور ہے اس سے تو رشوت مانگی جائے گی اور وہ مجبوراً دے بھی دے گا لیکن یہ رشوت کا مال لینے والے سارے گناہگار ہوں گے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ اس برائی میں حصہ دار نا بنے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.

اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔

الْمَآئِدَة، 5: 2

اس لیے اگر تو آپ کاغذات کی تیاری میں مدد اور رہنمائی کریں اور اس کی فیس لے لیں پھر جائز ہے، لیکن اگر آپ رشوت کے لین دین میں براہ راست شریک ہوں گے تو رشوت لینے اور دینے والے کے گناہ میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 09:45:20 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5708/